حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مُجَاوَرَۃَ اللّٰہِ فِيْ دَارِہٖ ان اَشعار کے کہنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ مجھے اللہ کے گھر (جنت )میں اس کا پڑوس نصیب ہوجائے ۔ اور اپنے بت منات کی مذمت میں یہ اَشعار کہے: تَاللّٰہِ لَوْکُنْتَ إِلٰـھًا لَّمْ تَکُنْ أَنْتَ وَکَلْبٌ وَسْطَ بِئْرٍ فِيْ قَرَنْ اللہ کی قسم! اگر تو سچا معبود ہوتا تو کتے کے ساتھ ایک رسی میں بندھا ہوا کنویں میں پڑا ہوا نہ ہوتا۔ أُفٍّ لِّمُلْقَاکَ إِلٰـھًا مُّسْتَدَنْ اَلْاٰنَ فَتَّشْنَاکَ عَنْ سُوْئِ الْغَبَنْ اس پر تف ہو کہ تو معبود ہونے کے باوجود ذلیل و خوار اس جگہ پڑا ہوا تھا، اب ہم نے تیرے انتہائی برے نقصان کو معلوم کرلیا ہے۔ ھُوَ الَّذِيْ أَنْقَذَنِيْ مِنْ قَبْلِ أَنْ أَکُوْنَ فِيْ ظُلْمَۃِ قَبْرٍ مُّرْتَھَنْ اللہ تعالیٰ نے ہی مجھے اس سے پہلے بچالیا کہ میں قبر کی اندھیری میں پڑا ہوا ہوتا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الْعَلِيِّ ذِي الْمِنَنْ اَلْوَاھِبِ الرَّزَّاقِ دَیَّانِ الدِّیَنْ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو سب سے بر تر، بڑے اِحسانات والا، عطیہ دینے والا، روزی دینے والا، جو (ہر طرح کی) عادتوں کا بدلہ دینے والا ہے۔ واقدی بیان کرتے ہیں: حضرت ابو درداء ؓ کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھرانہ میں سب سے آخر میں مسلمان ہوئے۔ وہ اپنے بت کی عبادت میں برابر لگے رہے۔ انھوں نے اس بت پر ایک رومال ڈالا ہوا تھا۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ زمانۂ جاہلیت سے ان کے بھائی بنے ہوئے تھے۔ وہ اُن کے پاس آکر اُن کو اِسلام کی دعوت دیا کرتے تھے، یہ ہر مرتبہ اِنکار کر دیتے۔ ایک دن حضرت عبداللہ نے دیکھا کہ حضرت ابو الدرداء گھر سے باہر جارہے ہیں۔ وہ ان کے بعد ان کے گھر میں ان کی بیوی کو بتائے بغیر داخل ہوگئے، وہ اپنے سر میں کنگھی کررہی تھی۔ اور اس سے پوچھا کہ ابو الدرداء کہاں ہیں؟ اُن کی بیوی نے کہا: آپ کے بھائی ابھی باہر گئے ہیں۔ حضرت ابو الدرداء نے جس کمرے میں بت رکھا ہوا تھا یہ اس میں کلہاڑا لے کر گئے اور اس بت کو نیچے گرا کر اس کے ٹکڑے کرنے لگے اور تمام شیاطین (یعنی بتوں)کے نام لے کر آہستہ آہستہ یہ کہہ کر گنگنارہے تھے: