حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سلوک کی وصیت کی تھی، کیوں کہ ہماری تمہارے ساتھ رشتہ داری ہے (حضرت ہاجرہ اور حضرت ماریہ قِبطیّہ دونوں مصر کے قِبطی قبیلہ کی تھیں)۔ اگر تم ہماری جزیہ والی بات کو قبول کرلوگے تو دو وجہ سے تمہاری ہم پر ذمہ داری ہوگی(ایک ذمی ہونے کی وجہ سے اور ایک رشتہ داری کی وجہ سے)۔ ہمارے امیر نے بھی ہمیں (مصر کے) قبطیوں کے ساتھ اچھے سلوک کی ہدایت کی تھی، کیوں کہ حضور ﷺ نے ہمیں قبطیوں کے ساتھ اچھے سلوک کی وصیت فرمائی ہے،اس لیے کہ قبطیوں سے رشتہ داری بھی ہے اور ان کی ذمہ داری بھی ہے۔ مصر یوں نے کہا: اتنے دور کی رشتہ داری کا خیال تو صرف نبی ہی کرسکتے ہیں۔ (حضرت ہاجرہ) وہ بھلی اور شریف خاتون ہمارے بادشاہ کی بیٹی تھیں، اہلِ مَنَف میں سے تھیں (مَنَف مصر کا پرانا دارالخلافہ ہے) اور بادشاہت ان ہی کی تھی۔ اہلِ عین شمس نے ان پر حملہ کرکے ان کو قتل کردیا اور ان سے بادشاہت چھین لی اور باقی ماندہ لوگ اس علاقے کو چھوڑ کر چلے گئے، اس طرح وہ خاتون حضرت اِبراہیم ؑ کے پاس آگئیں۔ حضرت اِبراہیم ؑ کی ہمارے ہاں آمد بڑی باعث ِمسرّت و خوشی تھی۔ جب تک ہم (مشورہ کرکے) واپس نہ آئیں اس وقت تک کے لیے ہمیں امن دے دیں۔ حضرت عمر و ؓ نے فرمایا: مجھ جیسے آدمی کو کوئی دھوکہ نہیں دے سکتا۔ تم دونوں کو تین دن کی مہلت دیتا ہوں تاکہ تم دونوں خود بھی غور کرلو اور اپنی قوم سے مشورہ بھی کرلو۔ اگر تم نے تین دن تک کوئی جواب نہ دیا تو میں تم سے جنگ شروع کردوں گا (مزید انتظار نہیں کروں گا)۔ ان دونوںنے کہا: کچھ وقت اور بڑھادیں۔ حضرت عمرو نے ایک دن اور بڑھادیا۔ انھوں نے کچھ اور وقت بڑھانے کی مزید درخواست کی، حضرت عمر و نے ایک دن اور بڑھادیا۔ وہ دونوں مُقَوقِس کے پاس واپس چلے گئے۔ مُقَوقِس نے تو کچھ آمادگی ظاہر کی مگر اَرْطبون نے ان دونوں کی بات ماننے سے انکار کردیا اور مسلمانوں پر چڑھائی کرنے کا حکم دے دیا۔ ان دونوں پادریوں نے مصر والوں سے کہا: ہم تو تمہاری طرف سے دفاع کی پوری کوشش کریں گے اور ان کی طرف لوٹ کر نہ جائیں گے اور ابھی چار دن باقی ہیں۔ ان چار دنوں میں مسلمانوں کی طرف سے تم پر حملہ کا خطرہ نہیں، امان ہی کی توقع ہے،لیکن فُرْقُب نے حضرت عمرو اورحضرت زُبیر ؓ پر اچانک شب خون مارا۔ حضرت عمرو (اس اچانک حملہ کے لیے) تیاری کیے ہوئے تھے، انھوں نے فُرْقُب کا مقابلہ کیا اور فُرْقُب اور اس کے ساتھی مارے گئے اور وہ یوں خود ہی اپنی تدبیر میں ناکام ہوگئے۔ وہاں سے حضرت عمرو اور حضرت زُبیر ؓ عینِ شمس کی طرف روانہ ہوئے۔ 1 حضرت ابو حارثہ اور حضرت ابو عثمان کہتے ہیں: جب حضرت عمرو ؓ مصریوں کے پاس عینِ شمس پہنچے تو مصر والوں نے اپنے بادشاہ سے کہا: تم اس قوم کا کیا بگاڑ لو گے جنھوں نے کسری اور قیصر کو شکست دے کر اُن کے ملک پر قبضہ کرلیا؟ ان سے