حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صلح کرلو اور ان سے معاہدہ کرلو۔ نہ خود ان کے سامنے مقابلہ کے لیے جاؤ اور نہ ہمیں لے جاؤ ، لیکن بادشاہ نہ مانا۔ یہ قصہ چوتھے دن کا ہے، اور ا س نے مسلمانوں پر حملہ کرکے جنگ شروع کردی۔ حضرت زُبیر ؓ ان کے شہر کی فصیل (پناہ کی دیوار)پر چڑھ گئے۔ یہ منظر دیکھ کر (وہ ڈر گئے اور)انھوں نے حضرت عمرو کے لیے شہر کا دروازہ کھول دیا اور صلح کرنے کے لیے شہر سے باہر نکل آئے۔ حضرت عمرو نے ان کی صلح کو منظور کرلیا۔حضرت زُبیر تو ان پر غالب ہوکر دیوار سے شہر میں اترے ۔1 حضرت سلیمان بن بُریدہ کہتے ہیں کہ جب امیر المؤمنین (حضرت عمر ؓ) کے پاس اہلِ ایمان کا لشکر جمع ہوجاتا تو ان پر کسی صاحب ِعلم اور فقیہ کو امیر بنادیتے۔ چناںچہ ایک لشکر تیار ہوا، حضرت سلمہ بن قیس اشجعی ؓ کو ان کا امیر بنایا اور ان کو یہ ہدایات دیں: تم اللہ کا نام لے کر چلو، اور اللہ کے راستہ میں ان لوگوں سے جنگ کروجو اللہ کا اِنکارکرتے ہیں۔ جب تمہارا مشرک دشمن سے سامنا ہو تو ان کو تین باتوں کی دعوت دو: (سب سے پہلے تو) اُن کو اِسلام کی دعوت دو۔ اگر وہ مسلمان ہوجائیں اور اپنے وطن میں ہی رہنا پسند کریں تو اُن کے مالوں میں ان پر زکوٰۃواجب ہوگی اور مسلمانوں کے مالِ غنیمت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔ اور اگر وہ تمہارے ساتھ (مدینہ میں) رہنا پسند کریں تو انھیں وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو تمہیں حاصل ہیں اور ان پر وہ تمام ذمہ داریاں عائد ہوں گی جو تم پر ہیں۔ اور اگر (اِسلام قبول کرنے سے) اِنکار کریں تو انھیں جزیہ دینے کی دعوت دو۔ اگر وہ جزیہ دینے پر راضی ہوجائیں تو اُن کے دشمنوں سے جنگ کرنا اور اُن کو جزیہ کی ادائیگی کے لیے فارغ کردینا اور اُن کو ان کی طاقت سے زیادہ کسی کام کی تکلیف نہ دینا۔ اگر وہ (جزیہ دینے سے بھی) ا ِنکار کر دیں تو ان سے جنگ کرو، اللہ تعالیٰ ان کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرے گا۔ اگر وہ تم سے ڈر کر کسی قلعہ میں خود کو محفوظ کرلیں اور وہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر اترنے کا مطالبہ کریں تو تم ان کو اللہ کے حکم پر مت اتارنا، کیوں کہ تم جانتے نہیں ہو کہ ان کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا کیا حکم ہے؟ اور اگر وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ذمہ داری پر اترنے کا مطالبہ کریں تو تم ان کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ذمہ داری پر مت اتارنا، بلکہ ان کو اپنی ذمہ داری پر اتارنا۔ اور اگر وہ تم سے جنگ کریں تو تم خیانت نہ کرنا اور بدعہدی نہ کرنا اور کسی کا ناک کان نہ کاٹنا اور کسی بچے کو قتل نہ کرنا ۔ حضرت سلمہؓ کہتے ہیں کہ ہم چلے اور مشرک دشمنوں سے ہمارا سامنا ہوا۔ (اِسلام کی) جس بات کا امیر المؤمنین نے ہمیں کہا تھا ہم نے ان کو اس بات کی دعوت دی، لیکن انھوں نے اِسلام لانے سے انکارکردیا۔ پھر ہم نے اُن کو جزیہ کی دعوت دی انھوں نے اسے بھی ماننے سے انکار کردیا۔ چناںچہ ہم نے اُن سے جنگ کی اللہ تعالیٰ نے اُن کے مقابلہ میں ہماری مدد