حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لیں۔ چناں چہ آپ باہر تشریف لائے اور اُن میں سے کسی سے کوئی بات نہ کی اور اپنی قربانی کو ذبح کیا اور اپنے نائی کو بلا کر اپنے بال منڈوائے۔ جب صحابہ نے یہ دیکھا تو انھوں نے بھی کھڑے ہوکر اپنی قربانیاں ذبح کیں اور ایک دوسرے کے بال مونڈنے لگے، اور رنج اور غم کے مارے یہ حال تھا کہ ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے ایک دوسرے کو قتل کردیں گے۔ پھر آپ کے پاس چند مؤمن عورتیں آئیں جن کے متعلق اسی وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {یٰٓایُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا جَآئَ کُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْہُنَّ} سے لے کر { بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ}1 تک۔ اے ایمان والو! جب آئیں تمہارے پاس ایمان والی عورتیں وطن چھوڑ کر تو اُن کو جانچ لو، اللہ خوب جانتا ہے ان کے ایمان کو۔ پھر اگر جانو کہ وہ ایمان پر ہیں تو مت پھیرو ان کو کافروں کی طرف ۔ نہ یہ عورتیں حلال ہیں ان کافروں کو اور نہ وہ کافر حلال ہیں ان عورتوں کو۔ اور دے دو ان کافروں کو جو ان کا خرچ ہوا ہو۔ اور گناہ نہیں تم کو کہ نکاح کرلو اور عورتوں سے جب اُن کو دو اُن کے مہر، اور نہ رکھو اپنے قبضہ میں ناموس کا فر عورتوں کے۔ چناں چہ اس حکم کی وجہ سے حضرت عمر نے اپنی دو عورتوں کو طلاق دے دی جو مشرک تھیں، ان میں سے ایک سے معاویہ بن ابی سفیان اور دوسری سے صفوان بن اُمیَّہ نے شادی کی، (یہ دونوں حضرات بھی اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) پھر حضورﷺ مدینہ واپس آگئے۔ اتنے میں قریش کے ابو بصیر ؓ مسلمان ہوکر آپ کے پاس آگئے۔ مکہ والوں نے ان کو واپس بلانے کے لیے دو آدمی بھیجے کہ آپ نے ہم سے جو معاہدہ کیا ہے اسے پورا کریں۔ آپ نے حضرت ابو بصیرکو ان دونوں کے حوالے کردیا۔ وہ دونوں ان کو لے کر وہاں سے چل پڑے یہاں تک کہ ذُو الحُلَیفہ پہنچ کر ٹھہر گئے اور کھجوریں کھانے لگے۔ حضرت ابوبصیر نے ان دونوں میں سے ایک سے کہا: اے فلانے! مجھے تمہاری تلوار بڑی عمدہ نظر آرہی ہے۔ اس نے نیام سے تلوار نکال کر کہا: ہاں اللہ کی قسم ! یہ تو بہت عمدہ تلوار ہے اور میں نے اسے بہت لوگوں پر آزمایا ہے۔ حضرت ابو بصیر نے کہا : ذرا مجھے دکھاؤ میں اسے دیکھوں۔ اس نے تلوار ان کے حوالے کردی، انھوں نے اس پر تلوار کا ایسا وار کیا کہ وہ وہیں ٹھنڈا ہوگیا۔ دوسرا وہاں سے مدینہ کی طرف بھاگ پڑا اور دوڑتا ہوا وہ مسجدِ نبوی میں داخل ہوا۔ حضورﷺ نے اسے دیکھ کر فرمایا: اس نے کوئی گھبراہٹ کی چیز دیکھی ہے ۔ جب وہ حضورﷺ کی خدمت میں پہنچا تو اس نے کہا: میرا ساتھی تو مارا جاچکا اب میرا نمبر ہے۔ اس کے بعد ابو بصیر پہنچے اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! اللہ تعالیٰ نے آپ کا عہد پورا کروادیا کہ آپ نے تو مجھے واپس کردیا تھا، اب اللہ تعالیٰ نے مجھے ان لوگوں سے چھٹکارا دلایا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: اس کی ماں کا ستیاناس ہو! یہ لڑائی بھڑکانے والا ہے۔ کاش! کوئی اسے سنبھالنے والا ہوتا۔ جب حضرت ابو بصیر نے یہ سنا تو وہ سمجھ گئے (کہ اب بھی اگر مکہ