حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے ہرگز صلح نہیں کروں گا۔ حضورﷺ نے فرمایا: تم اسے میری وجہ سے ہی چھوڑ دو۔ سہیل نے کہا: نہیں، میں اسے آپ کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتا ہوں۔ حضورﷺ نے فرمایا: ایسا نہ کرو، چھوڑ دو۔ سہیل نے کہا: نہیں، میں نہیں چھوڑ سکتا ۔ اس پر مِکْرَز نے کہا: اچھا! ہم اسے آپ کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں۔ حضرت ابو جندل نے کہا: اے مسلمانو! میں تو مسلمان ہوکر آیا تھا اور اب مجھے مشرکوں کی طرف واپس کیا جارہا ہے۔ کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ میں کتنی مصیبتیں اٹھا رہا ہوں؟ اور واقعی انھیں اللہ کی خاطر سخت مصیبتیں پہنچائی گئی تھیں۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ کیا آپ اللہ کے برحق نبی نہیں ہیں؟ حضورﷺ نے فرمایا: ہوں۔ پھر میں نے کہا: کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں تم ٹھیک کہتے ہو۔ میں نے کہا: پھر ہم کیوں اتنا دب کر صلح کریں؟ آپ نے فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں اور اس کی نافرمانی نہیں کرسکتا ہوں اور وہی میرا مددگار ہے۔ میں نے کہا :کیا آپ نے ہم سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ جاکر اس کا طواف کریں گے؟ آپ نے فرمایا: ہاں میں نے کہا تھا، لیکن کیا میں نے تم کو یہ بھی کہا تھا کہ ہم اسی سال بیت اللہ جائیں گے؟ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: تم بیت اللہ ضرور جاؤگے اور اس کا طواف کروگے۔حضرت عمر فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابوبکر کے پاس گیا اور ان سے کہا: اے ابو بکر ! کیا یہ اللہ کے برحق نبی نہیں ہیں؟ انھوں نے کہا :ہیں ۔ میں نے کہا: کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے؟ حضرت ابوبکر نے کہا:ہاں! تم ٹھیک کہتے ہو۔میں نے کہا: پھر ہم کیوں اتنا دب کر صلح کریں؟حضرت ابوبکر نے کہا: اے آدمی! وہ اللہ کے رسول ہیں اور وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرسکتے ہیں اور اللہ اُن کا مددگار ہے ۔ تم ان کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھو۔ اللہ کی قسم ! وہ حق پر ہیں۔ میں نے کہا :کیا انھوں نے ہم سے یہ نہیں فرمایا تھا ہم بیت اللہ جاکر اس کا طواف کریں گے؟ انھوں نے کہا :ہاں انھوں نے کہا تھا، لیکن کیا انھوں نے تم کو یہ بھی کہا تھا کہ تم اسی سال بیت اللہ جاؤگے ؟ میں نے کہا :نہیں۔ انھوں نے کہا: تم بیت اللہ ضرور جاؤگے اوراس کا طواف کروگے۔ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی گستاخی کی معافی کے لیے بہت سے اعمالِ خیر کیے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضورﷺ جب صلح نامہ کی لکھائی سے فارغ ہوئے تو آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا: اٹھو، اپنی قربانی ذبح کرو پھر اپنے سر مُونڈ لو۔ راوی کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! کوئی آدمی بھی کھڑا نہ ہوا حتیٰ کہ آپ نے یہ حکم تین مرتبہ فرمایا۔ جب ان میں سے کوئی بھی نہ کھڑا ہوا تو حضورﷺ حضرت اُمِّ سلمہؓکے پاس تشریف لے گئے اور لوگوں کی طرف سے آپ کو جو پریشانی پیش آرہی تھی وہ ان کو بتائی۔ تو انھوں نے کہا: اے اللہ کے نبی ! کیا آپ یہ کروانا چاہتے ہیں؟ آپ باہر تشریف لے جائیں اور ان میں سے کسی سے کوئی بات نہ کریں بلکہ اپنی قربانی ذبح کریں اور اپنے نائی کو بلا کر سر مُنڈا