حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے اُن کوکوئی لینے آیا) تو حضورﷺ اُن کو واپس کردیں گے۔ چناں چہ وہاں سے چل کر سمندر کے کنارے ایک جگہ آپڑے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابو جندل بن سہیل بن عمروؓمکہ والوں سے چھوٹ کر حضرت ابو بصیر کے پاس آگئے۔ اس طرح قریش کا جو شخص بھی مسلمان ہوتا وہ حضرت ابو بصیر سے جا ملتا، چند روز میں یہ ایک مختصر سی جماعت ہوگئی۔ اللہ کی قسم! ان لوگوں کو جب خبر لگتی کہ قریش کا کوئی تجارتی قافلہ ملکِ شام جارہا ہے تو اس پر ٹوٹ پڑتے، ان کو قتل کردیتے اور ان کا مال لے لیتے حتیٰ کہ کفار قریش نے (پریشان ہوکر ) حضورﷺ کی خدمت میں اللہ تعالیٰ کا اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر آدمی بھیجا کہ اس بے سری جماعت کو آپ اپنے پاس بلالیں (تاکہ یہ معاہدہ میں داخل ہوجائیں اور ہمارے لیے آنے جانے کا راستہ کھلے )اور اس کے بعد جو بھی آپ کے پاس آئے گا اسے امن ہے (ہم اسے واپس نہ لیں گے)۔ چناں چہ حضورﷺ نے آدمی بھیج کر اُن کو مدینہ بلوالیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : {وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاَیْْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْم بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْْہِمْ} سے لے کر { الْحَمِیَّۃَ حَمِیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ}1 تک۔ اوروہی ہے جس نے روک رکھا ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے بیچ شہر مکہ کے، بعد اس کے کہ تمہارے ہاتھ لگادیا ان کو (سے لے کر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان تک) جب رکھی منکروں نے اپنے دلوں میں کد، نادانی کی ضد ۔ ان کافروں کی ضد یہ تھی کہ انھوں نے نہ تو حضورﷺ کے نبی ہونے کا اقرار کیا اور نہ بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھے جانے کو مانا اور مسلمانوں کے اور بیت اللہ کے درمیان رکاوٹ بن گئے۔2 حضرت عروہؓ بیان فرماتے ہیں کہ صلحِ حدیبیہ کے موقع پر حضورﷺ کے حدیبیہ میں قیام فرمانے کی وجہ سے قریش گھبرا گئے۔ حضورﷺ نے مناسب سمجھا کہ اپنے صحابہ میں سے کسی کو قریش کے پاس بھیجیں۔ چناں چہ آپ نے قریش کے پاس بھیجنے کے لیے حضرت عمر بن الخطّابؓکو بلایا۔ انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! (آپ کے ارشاد پر عمل کرنے سے مجھے اِنکار نہیں ہے، لیکن) میں اہلِ مکہ کے نزدیک سب سے زیادہ مبغوض ہوں۔ اگر انھوں نے مجھے کوئی تکلیف پہنچائی تو مکہ میں (میرے خاندان) بنو کعب میں سے ایسا کوئی نہیں ہے جو (میرا دفاع کرے اور) میری وجہ سے ناراض ہو۔ آپ حضرت عثمان کو بھیج دیں، کیوں کہ ان کا خاندان مکہ میں ہے، تو جو پیغام آپ بھیجنا چاہتے ہیں وہ اہلِ مکہ کو پہنچادیں گے۔ چناں چہ حضورﷺ نے حضرت عثمان بن عفان ؓ کو بلاکر قریش کی طرف بھیجا اور اُن سے فرمایا کہ انھیں یہ بتادو کہ ہم (کسی سے) لڑنے کے لیے نہیں آئے ہیں ہم تو صرف عمرہ کرنے آئے ہیں، اور اُن کو اِسلام کی طرف دعوت دینا۔ اور آپ نے حضرت عثمان کو یہ بھی حکم دیا کہ مکہ میں جو مؤمن مرد اور عورتیں ہیں حضرت عثمان اُن کے پاس جاکر اُن کو فتح کی خوش خبری سنادیں، اور اُن کو بتادیں کہ اللہ تعالیٰ عنقریب مکہ میں اپنے دین کو ایسا غالب کردیں گے کہ پھر کسی کو اپنا ایمان