حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مِکْرَز ہے۔ یہ تو بڑا بدکار آدمی ہے۔ وہ آکر حضورﷺ سے باتیں کرنے لگا کہ اتنے میں سہیل بن عمرو آگئے۔ معمر راوی کہتے ہیں: مجھے ایوب نے عکرمہ سے یہ نقل کیا ہے کہ جب سہیل بن عمرو آئے تو حضورﷺ نے ان کے نام سے نیک فال لیتے ہوئے کہا: اب تمہارا کام آسان ہوگیا ۔معمر کہتے ہیں کہ زُہری اپنی حدیث میں یوں بیان کرتے ہیں کہ سہیل نے کہا: آئیے صلح نامہ لکھ لیتے ہیں۔ حضورﷺ نے لکھنے والے کو بلایا اور اس سے فرمایا: لکھو بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔سہیل نے کہا: مجھے تو پتہ نہیں کہ رحمن کون ہوتا ہے، اس لیے آپ بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّلکھیں جیسے پہلے لکھا کرتے تھے۔ صحابہ نے کہا: نہیں نہیں ہم تو صرف بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ لکھیں گے۔ حضورﷺ نے فرمایا: کوئی بات نہیں بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّلکھ دو۔ پھر آپ نے فرمایا: یہ لکھو ہٰذَا مَا قَاضٰی عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِکہ یہ وہ صلح نامہ ہے جس کا محمد رسول اللہ نے فیصلہ کیا ہے۔ تو سہیل نے کہا کہ اگر ہم یہ مان لیتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو نہ ہم آپ کو بیت اللہ سے روکتے اور نہ ہم آپ سے جنگ کرتے (صلح نامہ میں وہ بات لکھی جاتی ہے جو فریقین کو تسلیم ہو)، اس لیے محمد بن عبداللہ لکھو۔ حضورﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! چاہے تم نہ مانو، ہوں تو میں اللہ کا رسول لیکن محمد بن عبداللہ لکھ دو۔ حضرت زُہری فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کا فروں کی ہر بات اس لیے مان رہے تھے کیوں کہ قَصْواء اونٹنی کے بیٹھ جانے پر آپ نے اللہ سے یہ عہد کیا تھا کہ کفارِ مکہ مجھ سے جونسی بھی ایسی تجویز کا مطالبہ کریںگے جس سے وہ اللہ کی قابلِ احترام چیزوں کی تعظیم کررہے ہوں گے تو میں اُن کی ایسی ہر تجویز کو ضرور مان لوں گا ۔ حضورﷺ نے اس سے فرمایا کہ صلح کی شرط یہ ہوگی کہ تم ہمیں بیت اللہ کا طواف کرنے دوگے۔ تو سہیل نے کہا کہ اگر آپ اسی سال بیت اللہ کا طواف کریں گے تو سارے عرب میں یہ بات مشہور ہوجائے گی کہ ہم مکہ والے آپ سے دب گئے، اس لیے آپ اس سال نہ کریں اگلے سال کرلینا۔ چناں چہ یہ بات صلح نامہ میں لکھی گئی (کہ اگلے سال طواف اور عمرہ کریں گے)۔ سہیل نے کہا: صلح نامہ کی ایک شرط یہ ہوگی کہ ہم میں سے جو آدمی بھی آپ کے پاس چلا جائے گا چاہے وہ آپ کے دین پر ہو، آپ اسے ہمارے پاس واپس کردیں گے۔ مسلمانوں نے کہا: سبحان اللہ! یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ مسلمان ہوکر ہمارے پاس آئے اور اسے مشرکوں کے پاس واپس کردیا جائے۔ ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ سہیل بن عمرو کے بیٹے حضرت ابو جندل ؓ بیڑیوں میں چلتے ہوئے آگئے۔ یہ مکہ کے نیچے والے حصہ میں قید تھے، وہاں سے کسی طرح نکل کر آگئے اور گرتے پڑتے مسلمانوں کے مجمع میں پہنچ گئے۔ سہیل نے کہا: اے محمد ! میرا مطالبہ یہ ہے کہ صلح کی اس شرط کے مطابق آپ سب سے پہلے مجھے یہ آدمی واپس کریں۔ حضورﷺ نے فرمایا: ابھی تو اس صلح نامہ کی تحریر پوری نہیںہوئی (لہٰذا ابھی تو معاہدہ نہیں ہوا)۔ سہیل نے کہا: اللہ کی قسم! پھر تومیں آپ