حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضورﷺکی ساری بات بتائی۔ تو حضرت عروہ بن مسعود نے کھڑے ہوکر کہاکہ کیا میںتمہارے لیے والد کا درجہ نہیںرکھتا ہوں؟ انھوں نے کہا: رکھتے ہیں۔ عروہ نے کہا: کیا تم میرے لیے اولاد کی طرح نہیں ہو؟ انھوں نے کہا: ہاں! اولاد کی طرح ہیں۔ عروہ نے کہا: کیا تمہیں میرے بارے میں کوئی شک یا شبہ ہے؟ انھوں نے کہا: نہیں۔ عروہ نے کہا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں نے اہلِ عکاظ کو تمہاری مدد کے لیے آمادہ کیا تھا، لیکن جب وہ تیار نہ ہوئے تو میں اپنے گھر والوں اور اپنے بچوں اور اپنے مطیع و فرماں بردار انسانوں کو لے کر تمہاری مدد کے لیے آگیا تھا؟ انھوں نے کہا: ہاں معلوم ہے۔ عروہ نے کہا کہ اس آدمی نے (یعنی حضورﷺ نے) تمہارے سامنے ایک بھلی اور اچھی تجویز پیش کی ہے تو تم اس کو قبول کرلو، اور مجھے اس سلسلہ میں بات کرنے کے لیے اُن کے پاس جانے دو۔ مکہ والوں نے کہا: ضرور جاؤ۔ چناں چہ عروہ حضورﷺ کے پاس گئے اورحضورﷺ سے بات کرنے لگے۔ حضورﷺ نے جو بُدَیل کو فرمایا تھا وہی آپ نے ان سے بھی کہا ۔تو اس پر عروہ نے کہا: اے محمد! آپ یہ بتائیے کہ اگر آپ نے اپنی قوم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تو کیا آپ نے سنا ہے کہ آپ سے پہلے عرب کے کسی آدمی نے اپنے خاندان والوں کو جڑ سے اکھیڑ دیا ہو؟ اور اگر دوسری صورت ہوئی یعنی قریش تم پر غالب آگئے تو میں تمہارے ساتھ قابلِ اعتماد اور وفادار لوگوں کا مجمع نہیں دیکھ رہا ہوں، بلکہ اِدھر اُدھر کے متفرق لوگوں کی بھیڑ ہے جو (جنگ شروع ہوتے ہی) تمہیں چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ اس پرحضرت ابو بکرؓ نے کہا: تو اپنے معبود لات بُت کی پیشاب گاہ چوس! کیا ہم حضورﷺ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟ عروہ نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا: یہ ابو بکر ہیں۔ عروہ نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگر تمہارا مجھ پر وہ اِحسان نہ ہوتا جس کا میں اب تک بدلہ نہیں دے سکا تو میں تمہاری اس بات کا جواب ضرور دیتا ۔ عروہ حضورﷺ سے گفتگو کرتے ہوئے حضورﷺ کی ڈاڑھی کو ہاتھ لگانے لگتے اور(عروہ کے بھتیجے) حضرت مغیرہ بن شعبہؓ ہاتھ میں تلوار لیے اور سر پر خَود پہنے ہوئے حضورﷺ کے سرہانے کھڑے تھے۔ جب بھی عروہ حضورﷺ کی ڈاڑھی کی طرف ہاتھ بڑھاتے تو حضرت مغیرہ اس کے ہاتھ کو تلوار کا دستہ مارتے اور کہتے کہ حضورﷺ کی ڈاڑھی مبارک سے اپنے ہاتھ دور رکھو۔ چناں چہ عروہ نے سر اٹھا کر پوچھا: یہ آدمی کون ہے؟ لوگوں نے بتایا: یہ مغیرہ بن شعبہ ہیں۔ توعروہ نے کہا: او غدّار! کیا میں تیری غداری کو ابھی تک نہیں بھگت رہا ہوں؟ (یعنی تم نے جو قتل کیا تھا اس کا خون بَہَا میں ابھی تک دے رہا ہوں اور جو تم نے مال لوٹا تھا اس کا تاوان اب تک بھر رہا ہوں)۔ حضرت مغیرہ زمانۂ جاہلیت میں ایک قوم کے ساتھ سفر میں گئے تھے، ان کو قتل کرکے اور ان کا مال لے کر حضورﷺ کی خدمت میں آگئے تھے اور مسلمان ہوگئے تھے۔ حضورﷺ نے اُن سے صاف فرمایا تھا کہ تمہارا اِسلام تو قبول ہے، لیکن تم جو مال لائے ہو اس سے میرا کوئی