حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پھر آپ نے اس اونٹنی کو جِھڑکا تووہ فوراً کھڑی ہوگئی۔ پھر آپ نے مکہ کا راستہ چھوڑ دیا اور وادیٔ حدیبیہ کے آخری کنارے پر پڑاؤ ڈالا جہاں ایک چشمہ میں سے تھوڑا تھوڑا پانی نکل رہا تھا۔ صحابہ ؓ اس میں سے تھوڑا تھوڑا پانی لینے لگے تو تھوڑی دیر میں سارا پانی ختم ہوگیا اور صحابہ نے حضورﷺ سے پیاس کی شکایت کی۔ آپ نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر دیا اور فرمایا کہ اسے چشمہ میں گاڑ دو۔ (صحابہ نے وہ تیر اس چشمہ میں گاڑ دیا ) تو جب تک صحابہ وہاں رہے اس چشمہ میں سے پانی جوش مار کر پھوٹتارہا اور صحابہ اس سے خوب سیراب ہوتے رہے۔ حضورﷺ اور صحابۂ کرام ؓ وادیٔ حدیبیہ میں ٹھہرے ہوئے تھے کہ اتنے میں بُدَیل بن ورقاء اپنی قوم خُزاعہ کی ایک جماعت کو لے کر آئے، اور یہ لوگ اہل ِتہامہ میں سے آپ کے سب سے زیادہ خیر خواہ تھے۔ انھوں نے کہا: میں کعب بن لؤی اور عامر بن لؤی کے پاس سے آرہا ہوں، انھوں نے حدیبیہ کے چشموں پر پڑاؤ ڈالا ہوا ہے (اور وہ لڑنے کے لیے پوری طرح تیار ہوکر سارا سامان لے کر آئے ہیں حتیٰ کہ) اُن کے ساتھ بیاہی اور بچے والی اونٹیاں بھی ہیں، وہ آپ سے لڑنا چاہتے ہیںاور آپ کو بیت اللہ سے روکیں گے۔ تو آپ نے فرمایا: ہم کسی سے لڑنے کے لیے نہیں آئے بلکہ ہم تو عمرہ کرنے آئے ہیں، (ہم بہت حیران ہیں کہ وہ لڑائی کے لیے تیار ہوکر آگئے ہیں حالاں کہ) لڑائیوں نے تو قریش کو بہت تھکا دیا ہے اور ان کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اگر وہ چاہیں تو میں ان سے ایک عرصہ تک کے لیے صلح کرنے کو تیار ہوں، اس عرصہ میں وہ میرے اور لوگوں کے درمیان کوئی مداخلت نہیں کریں گے (اور میں اس عرصہ میں دوسرے لوگوں کو دعوت دیتا رہوں گا)۔ اگر دعوت دے کر میں لوگوں پر غالب آگیا (اور لوگ میرے دین میں داخل ہوگئے) تو پھر قریش کی مرضی ہے اگر وہ چاہیں تو وہ بھی اس دین میں داخل ہوجائیں جس میں دوسرے لوگ داخل ہوئے ہوں گے، اور اگر میں غالب نہ آیا (اور دوسرے لوگوں نے غالب آکر مجھے ختم کردیا) تو پھر یہ لوگ آرام سے رہیں گے۔ اور اگر وہ صلح کرنے سے انکار کردیں تو اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! میں اُن سے اس دین کے لیے ضرور لڑوں گا یہاں تک کہ میری گردن میرے جسم سے الگ ہوجائے (یعنی مجھے مار دیا جائے) اور اللہ کا دین ضرور چل کر رہے گا۔ حضرت بُدَیل نے کہا: آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں میں وہ سب اہلِ مکہ کو پہنچا دوں گا۔ چناں چہ حضرت بُدَیل وہاں سے چل کر قریش کے پاس پہنچے اور اُن سے کہا: ہم اس آدمی کے پاس سے آپ کے پاس آرہے ہیں اور ہم نے اس کو ایک بات کہتے ہوئے سنا ہے اگر آپ چاہیں تو ہم اس کی بات آپ کو پیش کردیں۔ اہلِ مکہ کے نادان قسم کے لوگوں نے کہا: ہمیں ان کی کوئی بات بتانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ان میں سے سمجھ دار لوگوں نے کہا: تم نے ان سے جو سنا ہے وہ ہمیں ضرور بتاؤ ۔ حضرت بُدَیل نے کہا: میں نے ان کو یہ یہ کہتے ہوئے سنا اور ان کو