حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
جوڑے اور انگوٹھیاں اتاردیں اور اپنے سفر والے کپڑے پہن لیں اور پھرحضورﷺ کی خدمت میں جائیں۔ چناں چہ ان لوگوںنے ایساہی کیا اور خدمت میں حاضر ہوکر سلام کیا تو حضورﷺ نے ان کے سلام کا جواب دیا اور پھرآپ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق دے کر بھیجا ہے! یہ لوگ جب پہلی مرتبہ میرے پاس آئے تھے تو اِبلیس بھی ان کے ساتھ تھا۔ پھر حضورﷺ نے ان سے حالات پوچھے اور انھوں نے حضورﷺ سے اپنے سوالات کیے۔ یونہی سوالات کا سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ انھوں نے حضورﷺ سے یہ پوچھاکہ آپ عیسیٰ ؑ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟کیوں کہ ہم عیسائی ہیں، ہم اپنی قوم کے پاس واپس جائیں گے۔ اگر آپ نبی ہیں تو ہماری خوشی اس میں ہے کہ ہم حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں آپ کے خیالات سن کر جائیں۔آپ نے فرمایا:آج تومیرے پاس اُن کے بارے میںکچھ زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ آج تم لوگ ٹھہر جاؤ میرا ربّ عیسیٰ ؑ کے بارے میں جو کچھ بتائے گا میں تمہیں اس کی خبر دوں گا۔ اگلے دن صبح کو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِِ کَمَثَلِ اٰدَمَ} سے لے کر {الْکَاذِبِیْنَ }1 تک۔ بے شک عیسیٰ ؑ کی مثال اللہ کے نزدیک جیسے مثال آدم ؑ کی، بنایا اس کو مٹی سے پھر کہا اس کو کہ ہوجا، وہ ہوگیا ، حق وہ ہے جو تیرا رب کہے۔ پھرتو مت رہ شک لانے والوں سے۔ پھر جو کوئی جھگڑا کرے تجھ سے اس قصہ میں بعد اس کے کہ آچکی تیرے پاس خبر سچی، تو تو کہہ دے آؤ بلاویں ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جان اور تمہاری جان، پھر التجا کریں ہم سب اور لعنت کریں اللہ کی ان پر کہ جو جھوٹے ہیں۔ (حضورﷺ نے اُن کو یہ آیات سنائیں لیکن ان آیات کو سن کر ) انھوں نے ان کو ماننے سے انکار کردیا (اور مباہلہ کے لیے تیار ہوگئے) ۔چناں چہ اگلے روز حضورﷺ مباہلے کے لیے تشریف لائے اور اپنی چادر میں حضرت حسن اور حضرت حسینؓکو لپیٹے ہوئے تھے اور حضرت فاطمہؓ آپ کے پیچھے پیچھے چل رہی تھیں، اور اس دن آپ کی بہت سی بیویاں تھیں۔ (یہ منظر دیکھ کر) شرحبیل نے اپنے دونوں ساتھیوں سے کہا کہ جب وادی کے اوپر اور نیچے کے رہنے والے لوگ جمع ہوجاتے ہیں تو سب میرے فیصلہ پر ہی مطمئن ہوکر واپس جاتے ہیں۔ اور اللہ کی قسم! میں بہت مشکل اور کٹھن بات دیکھ رہا ہوں۔ اللہ کی قسم ! اگر یہ آدمی واقعی غصہ سے بھرا ہوا ہے (اور ہم ان کی بات نہیں مانتے ہیں) تو ہم عربوں میں سب سے پہلے ان کی آنکھوں کو پھوڑنے والے اور ان کے امر کی سب سے پہلے تردید کرنے والے ہوجائیں گے، تو پھر ان کے اور ان کے ساتھیوں کے دل سے ہمارا خیال اس وقت تک نہیں نکلے گا یعنی ان کا غصہ اس وقت تک ٹھنڈا نہیں پڑے گا جب تک یہ ہمیں جڑ سے نہیں اُکھیڑ دیتے ہیں۔ اور ہم عربوں میں ان کے سب سے قریبی پڑوسی ہیں ،اور اگر یہ آدمی واقعی نبی اور رسول ہیں اور ہم نے ان سے مباہلہ کرلیا تو رُوئے زمین کے ہم تمام عیسائی ہلاک ہوجائیں گے، ہم میں سے کسی