حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گیا۔ پھر پادری نے آدمی بھیج کر اہلِ نجران کے ایک اور آدمی کو بلایا جس کا نام جبار بن فیض تھا اور وہ قبیلہ بنو الحارث بن کعب کی شاخ بنو الحماس میں سے تھا۔ اسے بھی پڑھنے کے لیے خط دیا اور اس خط کے بارے میں اس کی رائے پوچھی، اس نے بھی شرحبیل اور عبداللہ جیسا جواب دیا۔ پادری کے کہنے پر وہ بھی ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ جب ان سب نے اس بارے میں ایک ہی رائے دی تو پادری کے حکم دینے پر گھنٹا بجایا گیا اور گرجا گھروں میں آگ روشن کی گئی اور ٹاٹ کے جھنڈے بلند کیے گئے۔ دن میں جب گھبراہٹ کی بات پیش آتی تو وہ لوگ ایسا ہی کیا کرتے، اور اگر رات کو گھبراہٹ کی بات پیش آتی تو صرف گھنٹا بجاتے اور گرجا گھروں میں آگ روشن کرتے ۔چناں چہ جب گھنٹا بجایا گیا اور ٹاٹ کے جھنڈے بلند کیے گئے تو وادی کے تمام اوپر نیچے کے رہنے والے جمع ہوگئے۔ اور وہ وادی اتنی لمبی تھی کہ تیز سوار اسے ایک دن میں طے کرے اور اس میں تہتر بستیاں اور ایک لاکھ بیس ہزار جنگ جو جوان تھے۔ پادری نے اُن سب کو حضورﷺ کا خط پڑھ کر سنایا اور ان سے اس خط کے بارے میں رائے پوچھی۔ تو ان کے تمام اہلِ شوریٰ نے یہ رائے دی کہ شرحبیل بن وداعہ ہمدانی اور عبداللہ بن شرحبیل اصبَحِی اور جبار بن فیض حارثی کو حضورﷺ کے پاس بھیج دیا جائے اور یہ تینوں حضورﷺ کے تمام حالات معلوم کرکے آئیں۔ چناں چہ ان تینوں کا وفد گیا۔ جب یہ مدینہ پہنچے تو انھوں نے اپنے سفر کے کپڑے اتار دیے اور یمن کے بنے ہوئے مزیّن اور لمبے جوڑے پہن لیے جو زمین پر گھسٹ رہے تھے اور ہاتھوں میں سونے کی انگوٹھیاں پہن لیں۔ پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام کیا لیکن آپ نے اُن کے سلام کا جواب نہ دیا۔ وہ لوگ دن بھر حضورﷺ سے گفتگو کا موقع تلاش کرتے رہے، لیکن آپ نے اُن سے کچھ گفتگو نہ فرمائی کیوں کہ انھوں نے وہ جوڑے اور سونے کی انگوٹھیاں پہنی ہوئی تھیں۔ پھر وہ تینوں حضرت عثمان بن عفانؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓکی تلاش میں چلے ،ان لوگوں کی ان دونوں حضرات سے جان پہچان تھی۔ وہ دونوں حضرات مہاجرین اور اَنصار کی ایک مجلس میں مل گئے تو ان لوگوں نے کہا: اے عثمان! اور اے عبدالرحمن ! تمہارے نبی نے ہمیں خط لکھا جس کی وجہ سے ہم یہاں آئے ہیں ۔ ہم نے ان کی خدمت میں جاکر سلام کیا لیکن انھوں نے سلام کا جواب نہیں دیا۔ اور دن بھر ہم ان سے گفتگو کا موقع تلاش کرتے رہے لیکن انھوں نے ہمیں کوئی موقع نہیں دیا۔ ہم تو اب تھک گئے تو آپ دونوں کا کیا خیال ہے؟ کیا ہم واپس چلے جائیں؟ حضرت علیؓ بھی اسی مجلس میں موجود تھے تو ان دونوں حضرات نے حضرت علی سے فرمایا: اے ابوالحسن ! ان لوگوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ تو حضرت علی نے ان دونوں حضرات سے فرمایا کہ میرا خیال یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے یہ