حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تم اپنے باپ حضرت ابراہیم ؑ کے دین میں داخل ہونا چاہتے ہو جو ہر غلط اور اور باطل سے پاک ہے؟ میں نے کہا: میں ایک قوم کی طرف سے قاصد بن کر آیا ہوں اور اسی قوم کے دین پر ہوں۔ جب تک اس قوم کے پاس واپس نہ چلا جاؤں اُن کے دین کو نہیں چھوڑ سکتا ہوں۔ اس پر آپﷺ نے یہ آیت پڑھی: {اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُج وَہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ O}1 تو راہ پر نہیں لاتا جس کو تو چاہے ، پر اللہ راہ پر لائے جس کو چاہے، اور وہی خوب جانتا ہے جو راہ پر آئیں گے۔ اس کے بعد فرمایا: اے تنوخی بھائی! میں نے ایک خط نجاشی کو بھیجا تھا اس نے میرا خط پھاڑ دیا، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے اور اس کے ملک کو پھاڑ دیں گے (بظاہر یہ نجاشی اور ہے، اور جو نجاشی حضورﷺ کا خط پڑھ کر مسلمان ہوگئے تھے اور جن کی حضورﷺ نے غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی تھی وہ اور ہیں) ۔اور میں نے تمہارے بادشاہ (قیصر) کو بھی خط لکھا تھا اس نے میرے خط کو سنبھال کر رکھا (اسے پھاڑا نہیں) اس لیے جب تک اس کی زندگی میں خیر مقدر ہے اس وقت تک لوگوں کے دلوں میں اس کا رعب رہے گا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہِرَ قْل نے مجھے جن تین باتوں کے خیال رکھنے کا کہا تھا یہ ان میںسے ایک تو ہوگئی۔ اور میں نے اپنے ترکش میں سے تیر نکال کر فوراً اپنی تلوار کے نیام کی کھال پر تیرسے لکھ لیا۔ پھر حضورﷺ نے وہ خط اپنی بائیں طرف والے ایک آدمی کو دیا ۔ میں نے پوچھا کہ یہ خط پڑھنے والے صاحب کون ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت معاویہؓ ہیں۔ (حضرت معاویہؓ خط پڑھنے لگے) ہِرَ قْل کے اس خط میں یہ مضمون تھا کہ آ پ مجھے ایسی جنت کی دعوت دے رہے ہیں جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے اور جو متقیوں کے لیے تیار کی گئی ہے، (جب آسمانوں اور زمین کے برابر جنت ہوگئی تو) دوزخ کہاں ہوگی؟ تو آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! جب دن آتا ہے تو رات کہاں چلی جاتی ہے؟ میں نے اپنے ترکش میں سے تیر نکال کر اپنی تلوار کے نیام پر اس بات کو بھی لکھ لیا۔ جب آپ میرے خط کو سن چکے تو آپ نے مجھ سے فرمایا: تم میرے پاس قاصد بن کر آئے ہو، تمہارا ہم پر حق ہے۔ اگر ہمارے پاس تحفہ کے طور پر دینے کے لیے کوئی چیز ہوئی تو ہم تمہیں ضرور دیں گے، کیوں کہ اس وقت ہم سفر میں ہیں اور زادِ راہ بالکل ختم ہوچکا ہے۔ لوگوںمیں سے ایک آدمی نے بلند آواز سے کہا: میں اس کو تحفہ دیتا ہوں۔ چناں چہ اس نے اپنا سامان کھولا اور ایک صفوریہ (اُردن کے شہر صفورہ کا بنا ہوا) جوڑا لاکر انھوں نے میری گود میں رکھ دیا۔ میں نے پوچھا: یہ جوڑا دینے والے صاحب کون ہیں؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ حضرت عثمان ؓ ہیں۔ پھر حضورﷺ نے فرمایا: اس قاصد کو کون اپنا مہمان بنائے گا ؟ ایک نوجوان انصاری نے کہا: میں بناؤں گا۔ وہ انصاری کھڑے ہوئے تو میں بھی اُن کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ جب میں آپ کی مجلس سے باہر چلاگیا تو آپ نے مجھے آواز دی: اے تنوخی بھائی! تو میں واپس آیا اور آپ کے