حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بھتیجے! آپ عکاظ چلیں میں بھی آپ کے ساتھ چلتا ہوں،آپ کو قبائل کی قیام گاہیں دکھاؤں گا۔ چناںچہ حضورﷺ نے قبیلہ ثقیف سے ابتدا فرمائی اور پھر اس سال حج میں قبائل کو تلاش کرکے دعوت دیتے رہے۔ پھر جب اگلا سال ہوا جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کھلّم کھلا دعوت دینے کا حکم دیا تو اَوس اور خزرج کے چھ آدمیوں سے آپ کی ملاقات ہوئی جن کے نام یہ ہیں: اَسعد بن زُرارہ اور ابو الہیثم بن التَیِّہان اور عبداللہ بن رواحہ اور سعد بن ربیع اور نعمان بن حارثہ اور عبادہ بن صامت۔ حضورﷺ کی اُن سے ملاقات منیٰ کے دنوں میں جمرۂ عَقَبہ کے پاس رات کے وقت ہوئی۔ آپ ان کے پاس بیٹھے، اور ان کو اللہ عزّوجل کی اور اس کی عبادت کرنے کی اور اس کے اس دین کی مدد کرنے کی دعوت دی جو دین دے کر اللہ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کو بھیجا ہے۔ انھوں نے درخواست کی کہ حضورﷺ (آسمان سے آنے والی) وحی کو اُن پر پیش فرمائیں۔ چناں چہ آپ نے سورۂ ابراہیم {وَاِذْ قَالَ اِبْرَاہِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا}سے لے کر آخر تک پڑھ کر سنائی ۔ جب انھوں نے قرآن سنا تو اُن کے دل نرم پڑ گئے اور اللہ کے سامنے عاجزی کرنے لگے اور (حضورﷺ کی دعوت کو) قبول کرلیا ۔ جب حضورﷺ کی اور ان کی گفتگو ہورہی تھی تو حضرت عباس بن عبدالمطّلبؓ پاس سے گزرے تو انھوں نے حضورﷺ کی آواز کو پہچان لیا اور فرمایا: اے میرے بھتیجے! یہ تمہارے پاس کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: اے میرے چچا! یہ یثرب کے رہنے والے اَوس و خزرج کے لوگ ہیں۔ اُن کو بھی میں نے اسی بات کی دعوت دی جس کی دعوت ان سے پہلے دوسرے قبیلوں کو دے چکا ہوں ۔ انھوں نے میری دعوت کو قبول کرکے میری تصدیق کی اور یہ کہا کہ وہ مجھے اپنے علاقہ میں لے جائیں گے۔ چناں چہ حضرت عباس بن عبدالمطّلب اپنی سواری سے نیچے اُترے اور اپنی سواری کی ٹانگیں باندھ دیں۔ پھر ان سے کہا: اے جماعتِ اَوس و خزرج! یہ میرا بھتیجا ہے اور یہ مجھے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہے۔ اگر تم نے ان کی تصدیق کی ہے اور تم ان پر ایمان لے آئے ہو اور ان کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہو تو میں تم سے اپنے دلی اطمینان کے لیے یہ عہد لینا چاہتا ہوں کہ تم ان کو لے جاکر وہاں بے یار ومددگار نہیں چھوڑوگے اور ان کو دھوکا نہیں دوگے، کیوں کہ تمہارے پڑوسی یہودی ہیں اور یہودی ان کے دشمن ہیں، اور مجھے خطرہ ہے کہ وہ ان کے خلاف تدبیر یں کریں گے ۔ حضرت عباس نے جب حضرت سعد اور اُن کے ساتھیوں کے بارے میں عدمِ اطمینان کا اظہار کیا تو یہ بات حضرت اَسعد بن زُرارہ پر بڑی گراں گزری، اس لیے انھوں نے کہا :یا رسول اللہ !آپ ہمیں حضرت عباس کو ایسا جواب دینے کی اجازت دیں جس میں ایسی کوئی بات نہیں ہوگی جس سے آپ کو غصہ آئے یا آپ کو ناگوار گزرے ،بلکہ ایسا جواب دیں گے جس