حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
{ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًاO وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا O}2 جن کاترجمہ یہ ہے: ہم نے تجھ کو بھیجا بتانے والا اور خوش خبری سنانے والا اور ڈرانے والا اور بلانے والا اللہ کی طرف اس کے حکم سے اور چمکتا ہوا چراغ۔ پھر حضورﷺ حضرت ابوبکرؓ کا ہاتھ پکڑ کر کھڑے ہوگئے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد حضورﷺ نے ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: اے علی! زمانۂ جاہلیت میں عرب کے اَخلاق کیا ہیں۔ یہ کتنے بلند ہیں۔ ان اخلاق کی وجہ سے دنیاوی زندگی میںایک دوسرے کی حفاظت کرلیتے ہیں۔ حضرت علی نے فرمایا: پھر ہم اَوس و خزرج کی مجلس میں پہنچے۔ ہمارے اٹھنے سے پہلے ہی وہ حضورﷺسے بیعت ہوگئے۔حضرت علی فرماتے ہیں کہ وہ اَوس و خزرج بڑے سچے اور بڑے صابر تھے ۔ اَنسابِ عرب کے بارے میں حضرت ابوبکرکی اتنی زیادہ معلومات سے حضورﷺ بڑے خوش ہوئے۔ اس کے کچھ عرصہ کے بعد حضورﷺ نے اپنے صحابۂ ؓ کے پاس آکر فرمایا کہ اللہ کی بہت ہی حمد بیان کرو، کیوں کہ آج بنو ربیعہ نے اہلِ فارس پر کامیابی حاصل کرلی ہے، ان کے بادشاہوں کو قتل کردیا ہے ، ان کے لشکر کو بالکل تباہ کردیا ہے اور ان کی یہ ساری مدد میری وجہ سے ہوئی ہے ۔ 1 دوسری روایت میں یہ تفصیل بھی ہے کہ جب بنو ربیعہ کی فارس والوں سے جنگ ہوئی اور فرات کے قریب قُراقِر مقام پر دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا تو بنو ربیعہ نے محمدﷺ کے نام کو اپنا شعار اور خاص نشانی بنالیا ،جس کی وجہ سے فارس کے خلاف اللہ نے اُن کی مدد فرمائی اور بنو ربیعہ اس جنگ کے بعد اِسلام میں داخل ہوگئے۔2 حضرت علیؓ نے ایک دن انصار کی فضیلت اور ان کے پرانا ہونے اور اسلام میں سبقت لے جانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جو انصار سے محبت نہ کرے اور ان کے حقوق کو نہ پہچانے وہ مؤمن نہیں ہے۔ انھوں نے اِسلام کی ایسے دیکھ بھال کی جیسے گھوڑے کے بچھیرے کی کی جاتی ہے۔ وہ اپنے ہتھیاروں کی مہارت اور اپنی گفتگو کی طاقت اور اپنے دلوں کی سخاوت کی وجہ سے اسلام کی دیکھ بھال کے لیے کافی ہوگئے۔ حضورﷺ حج کے موسم میں قبائل کے پاس تشریف لے جاکر اُن کو دعوت دیا کرتے تھے ،لیکن اُن میں سے کوئی بھی آپ کی بات کو نہ مانتا اور آپ کی دعوت کو قبول نہ کرتا ۔ آپ مجِنّہ اور عکاظ اور منیٰ کے بازاروں میں ان قبائل کے پاس تشریف لے جاتے اور ہر سال جاکر اُن کو دعوت دیا کرتے ۔ آپ ان کے پاس اتنی بار گئے کہ قبائل والے لوگ (آپ کی استقامت سے حیران ہوکر)کہنے لگ گئے کہ کیا اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ آپ ہم لوگوں سے ناامید ہوجائیں ؟ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے انصار کے اس قبیلہ کو نواز نے کا ارادہ فرمایا۔ چناں چہ آپ نے ان انصار پر اسلام کو پیش فرمایا جسے انھوں نے جلدی سے قبول کرلیا۔ اور انھوں نے آپ کو (مدینہ میں) اپنے پاس ٹھہرا لیا، اور آپ کے ساتھ نصرت اور غم خواری کا معاملہ کیا ۔ فَجَزَاہُمُ اللّٰہُ خَیْرًا۔ہم مہاجرین اُن کے پاس گئے تو