حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تلاش کرنے یہاں واپس آئیں گے۔ اللہ کی قسم! میں وہاں لیٹی ہوئی تھی کہ حضرت صفوان بن معطّل سُلَمِی ؓ میرے پاس سے گزرے۔ وہ اپنی کسی ضرورت سے لشکر سے پیچھے رہ گئے تھے، اس لیے انھوں نے یہ رات لوگوں کے ساتھ نہ گزاری۔ انھوں نے جب میرا وجود دیکھا تو آکر میرے پاس کھڑے ہو گئے اور پردہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے انھوںنے مجھے دیکھا ہوا تھا، اس لیے انھوں نے جب مجھے دیکھا تو (مجھے پہچان لیا اور) کہا: إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ تو رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں۔ حالاں کہ میں کپڑوں میں لپٹی ہوئی تھی۔ حضرت صفوان نے کہا: اللہ آپ پر رحم فرمائے! آپ کیسے پیچھے رہ گئی ہیں؟ فرماتی ہیں: میں نے اُن کو کوئی جواب نہ دیا۔ پھر انھوں نے اُونٹ میرے قریب لا کر کہا: اس پر سوار ہو جائو۔ اور خود میرے سے دور چلے گئے۔ چناںچہ میں سوار ہو گئی اور انھوں نے اُونٹ کی نکیل پکڑ کر لوگوں کی تلاش میں تیز تیز چلنا شروع کر دیا۔ صبح تک ہم لوگوں تک نہ پہنچ سکے اور نہ ہی لوگوں کو میرے نہ ہونے کا پتہ چل سکا۔ ان لوگوں نے ایک جگہ پڑائو ڈالا۔ جب وہ لوگ وہاں ٹھہر گئے تو اتنے میں یہ (حضرت صفوان) مجھے اُونٹ پر بٹھائے، اُونٹ کی نکیل پکڑے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔ اس پر اِفک والوں نے (تہمت باندھنے والوں نے) جو بات بنانی تھی وہ بنا کر کہنی شروع کر دی اور سارے لشکر میں بے چینی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اللہ کی قسم! مجھے کسی بات کی خبر نہیں تھی۔ پھر ہم مدینہ آگئے۔ وہاں پہنچتے ہی میں بہت زیادہ بیمار ہو گئی۔ اور لوگوں میں جو باتیں ہو رہی تھیں ان میں سے کوئی بات بھی مجھ تک نہ پہنچ سکی، البتہ حضور ﷺ اور میرے والدین تک ساری بات پہنچ چکی تھی لیکن کسی نے مجھ سے کسی قسم کا تذکرہ نہ کیا۔ ہاں! اتنی بات ضرور تھی کہ میں نے حضور ﷺ کی وہ پہلے والی عنایت نہ دیکھی۔ میں جب بیمار ہو جاتی تھی تو آپ مجھ پر بہت شفقت اور مہربانی فرماتے تھے۔ آپ نے میری اس بیماری میں وہ کچھ بھی نہ کیا۔ مجھے آپ کی اس بات سے کچھ کھٹک محسوس ہوئی۔ آپ جب گھر میں داخل ہوتے اور میرے پاس آتے اور میرے پاس میری والدہ کو تیمار داری میں مشغول دیکھتے تو بس اتنا فرماتے کہ اب اس کا کیا حال ہے؟ اس سے زیادہ کچھ نہ فرماتے۔ آپ کی اس بے رُخی کو دیکھ کر مجھے بڑی پریشانی ہوئی۔ اور اس بے رُخی کو دیکھ کر میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں اپنی والدہ کے پاس چلی جاتی ہوں، وہ میری تیمار داری بھی کرتی رہیں گی۔ آپ نے فرمایا: کوئی حرج نہیں ہے، تم جاسکتی ہو۔ چناںچہ میں اپنی والدہ کے پاس چلی گئی اور جو کچھ مدینہ میں ہو رہا تھا مجھے اس کی کچھ خبر نہیں تھی۔ بیس دن سے زیادہ گزرنے کے بعد میری صحت ٹھیک ہوئی، لیکن ابھی کمزوری باقی تھی۔ اور ہم لوگ اپنے گھروں میں بیت الخلا نہیں بنایا کرتے تھے جیسے عجمی لوگ بناتے تھے بلکہ گھروں میں بیت الخلا کو برا سمجھتے تھے۔ قضائے حاجت کے لیے ہم