حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اندر داخل ہوئے جن میں کالے رنگ کا ایک آدمی تھا۔ حضرت ابنِ زُبیر نے پوچھا: یہ لوگ کون ہیں؟ کسی نے کہا: یہ حمص والے ہیں۔ اس پر حضرت ابنِ زُبیر نے دو تلواریں لے کر اُن پر حملہ کر دیا۔ مقابلہ میں سب سے پہلے وہ کالا آدمی ہی آیا۔ انھوں نے تلوار مار کر اس کی ٹانگ اُڑا دی۔ اس نے تکلیف کی شدت کی وجہ سے کہا: ہائے، اے بدکار عورت کے بیٹے! (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ!) حضرت ابنِ زُبیر نے فرمایا: دفع ہو اے حام کے بیٹے! (کالے لوگ حضرت نوح ؑ کے بیٹے حام کی نسل میں شمار ہوتے ہیں) کیا حضرت اسماء بدکار ہو سکتی ہیں؟ پھر ان سب کو مسجد سے نکال کر واپس آئے۔ اتنے میں کچھ لوگ بابِ بنی سہم سے داخل ہوئے۔ انھوں نے پوچھا :یہ لوگ کون ہیں؟ کسی نے کہا: یہ اُردن والے ہیں۔ تو یہ شعر پڑھتے ہوئے اُن پر حملہ کیا: لَا عَھْدَ لِيْ بِغَارَۃٍ مِّثْلِ السَّیلِ لَا یَنْجَلِيْ غُبَارُھَا حَتَّی اللَّیْلِ میں نے سیلاب جیسی غارت گری نہیں دیکھی کہ جس کا غبار رات تک صاف نہ ہو۔ اور اُن کو مسجد سے نکال دیا۔ اتنے میں کچھ لوگ بابِ بنی مخزوم سے داخل ہوئے تو اُن پر یہ شعر پڑھتے ہوئے حملہ کیا: لَوْکَانَ قِرْنِيْ وَاحِدًا کَفَیْتُہٗ اگر میرا مقابل ایک ہوتا تو میں اس سے نمٹنے کے لیے کافی تھا۔ مسجد الحرام کی چھت پر اُن کے مدد گار کھڑے تھے جو (داخل ہونے والے) اُن کے دشمن پر اوپر سے اینٹیں وغیرہ پھینک رہے تھے۔ جب حضرت ابنِ زُبیر نے ان داخل ہونے والوں پر حملہ کیا تو اُن کے سر کے بیچ میں ایک اینٹ آکر لگی جس سے اُن کا سر پھٹ گیا تو کھڑے ہو کر یہ شعر پڑھا: وَلَسْنَا عَلَی الْأَعْقَابِ تُدْمٰی کُلُوْمُنَا وَلٰکِنْ عَلٰی أَقْدَامِنَا تَقْطُرُ الدِّمَا ہمارے زخموں کا خون ہماری ایڑیوں پر نہیں گرا کر تا ہے بلکہ ہمارے قدموں پر گرا کرتا ہے یعنی ہم بہادر ہیں، ہمیں جسم کے اگلے حصے پر زخم آتا ہے پچھلے حصے پر نہیں آتا ہے۔ اس کے بعد وہ گر گئے تو اُن کے دو غلام ان پر یہ کہتے ہوئے جھکے کہ غلام اپنے آقا کی حفاظت کرتا ہے اور اپنی بھی حفاظت کرتا ہے۔ پھر دشمن کے لوگ چل کر اُن کے قریب آگئے اور انھوں نے اُن کاسر کاٹ لیا۔ 1 حضرت اسحاق بن ابی اسحاق فرماتے ہیں کہ جس دن حضرت ابنِ زُبیر ؓ مسجدِ حرام میں شہید کیے گئے، میں وہاں موجود تھا۔ (میں نے دیکھا کہ) لشکر مسجدِ حرام کے دروازے سے داخل ہونے لگے۔ جب بھی کسی دروازے سے کچھ لوگ داخل