حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اہلِ شام کا لشکر دے کر مسلم بن عقبہ مُرِّی کو بھیجا اور اسے اہلِ مدینہ سے جنگ کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی کہا کہ مسلم جب اہلِ مدینہ سے جنگ سے فارغ ہو جائے تو مکہ کی طرف روانہ ہو جائے۔ چناںچہ مسلم بن عقبہ لشکر لے کر مدینہ داخل ہوا اور حضور ﷺ کے جتنے صحابہ وہاں باقی تھے وہ سب مدینہ سے چلے گئے۔ مسلم نے مدینہ والوں کی توہین کی اور انھیں خوب قتل کیا۔ وہاں سے مکہ کی طرف روانہ ہوا۔ ابھی راستہ میں ہی تھا کہ مسلم مر گیا۔ مسلم نے حصین بن نمیر کندی کو مرنے سے پہلے اپنا نائب مقرر کیا اور کہا: اے گدھے کی پالان والے! قریش کی مکاریوں سے بچ کر رہنا اور پہلے اُن سے لڑنا اور پھر انھیں چن چن کر قتل کرنا۔ چناںچہ وہاں سے حصین چلا اور مکہ پہنچ گیا اور کئی دن تک حضرت ابنِ زبیر ؓ سے مکہ میں لڑتا رہا۔ آگے مزید حدیث بھی ہے جس میں یہ مضمون بھی ہے کہ حصین بن نمیر کو یزید بن معاویہ کے مرنے کی خبر ملی تو حصین بن نمیر بھاگ گیا۔ جب یزید بن معاویہ کا انتقال ہو گیا تو مروان بن حکم خلیفہ بن گیا اور اس نے لوگوں کو اپنی خلافت کی اور اپنے سے بیعت ہو نے کی دعوت دی۔ آگے حدیث اور ہے جس میں یہ مضمون بھی ہے کہ پھر مروان بھی مر گیا اور عبد الملک خلیفہ بن گیا اور اس نے اپنے سے بیعت ہو نے کی دعوت دی۔ اس کی دعوت کو شام والوں نے قبول کر لیا۔ اور اس نے منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور اس نے کہا: تم میں سے کون ابنِ زُبیر کو ختم کرنے کے لیے تیار ہے؟ حجاج نے کہا: اے امیر المؤمنین! میں۔ عبد الملک نے اسے خاموش کر دیا۔ پھر حجاج کھڑا ہوا تو اسے عبد الملک نے پھر خاموش کر دیا۔ پھر تیسری مرتبہ حجاج نے کھڑے ہو کر کہا: اے امیر المؤمنین! میں تیارہوں، کیوںکہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں نے عبد اللہ بن زُبیر سے جُبَّہ چھین کر پہن لیا ہے۔ اس پر عبد الملک نے حجاج کو لشکر کا سپہ سالار مقرر کیا اور اسے لشکر دے کر مکہ بھیجا۔ اس نے مکہ پہنچ کر حضرت عبد اللہ بن زُبیر سے جنگ شروع کر دی۔ حضرت ابنِ زُبیر نے مکہ والوں کو ہدایت کی اور اُن سے فرمایا کہ ان دو پہاڑوں کو اپنی حفاظت میں رکھو، کیوںکہ جب تک وہ ان دو پہاڑوں پر چڑھ نہیں جاتے اس وقت تک تم خیریت کے ساتھ غالب رہو گے۔ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد حجاج اور اس کے ساتھی ابو قبیس پہاڑ پر چڑھ گئے اوراس پر انھوں نے مَنْجنِیق نصب کر دی، اور اس سے حضرت ابنِ زُبیر اور ان کے ساتھیوں پر مسجدِ حرام میں پتھر پھینکنے لگے۔ جس دن حضرت ابنِ زُبیر شہید ہوئے اس دن صبح کو وہ اپنی والدہ حضرت اسماء بنتِ ابی بکر ؓ کے پاس گئے۔ اس وقت حضرت اسماء کی عمر سو سال تھی لیکن نہ اُن کا کوئی دانت گرا تھا، نہ اُن کی نگاہ کمزورہوئی تھی۔ انھوں نے اپنے بیٹے حضرت ابنِ زُبیر کو یہ نصیحت فرمائی کہ اے عبد ا للہ! تمہاری جنگ کا کیا بنا ہے؟ انھوں نے بتایا کہ وہ فلاں فلاں جگہ پہنچ چکے ہیں اور وہ ہنس کر کہنے لگے کہ موت سے راحت ملتی ہے۔ حضرت اسماء نے کہا: اے