حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پھر میں ان میں سے کسی ایک کے قریب ہوجاتا اور وہ سواری پر ہوتا تو میں اسے تیر مارتا۔ وہ تیر اس آدمی کو لگ جاتا اور میں اس کے کندھے کو تیر سے چھید دیتا اور میں اس سے کہتا : خُذْھَا وَأَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ وَالْیَوْمُ یَوْمُ الرُّضَّعِ اس تیر کو لے ۔میں اکوع کا بیٹا ہوں ۔آج کا دن کمینوں اور کنجوسوں (کی ہلاکت) کا دن ہے۔ پھر جب میں درختوں کی اوٹ میں ہوتا تو میں تیروں سے اُن کو بھون ڈالتا۔ جب کہیں تنگ گھاٹیاں آتیں تو میں پہاڑ پر چڑھ کر اُن پر پتھر برساتا۔ میرا اُن کے ساتھ یہی رویہ رہا۔ میں اُن کا پیچھا کرتا رہا اور رَجزیہ اَشعار پڑھتا رہا، یہاں تک کہ حضور ﷺ کے تمام اُونٹ میں نے اُن سے چھڑا لیے اور وہ اُونٹ میرے پیچھے رہ گئے۔ پھر میں اُن پر تیر چلاتا رہا یہاں تک کہ وہ تیس سے زیادہ برچھے اور تیس سے زیادہ چادریں چھوڑ گئے، اس طرح وہ اپنا بوجھ ہلکا کرنا چاہتے تھے۔ مجھے اُن سے جو چیز ملتی تو میںنشانی کے طور پر اس پر کوئی نہ کوئی پتھر رکھ دیتا اور حضور ﷺ کے راستہ پر اُن کو جمع کرتا جاتا۔ یہاں تک کہ جب دھوپ پھیل گئی یا چاشت کا وقت ہو گیا تو کافر اس وقت تنگ گھاٹی میں تھے کہ عیینہ بن بدر فزاری ان کافروں کی مدد کے لیے آدمی لے کر آیا۔ پھر میں ایک پہاڑ پر چڑھ گیا اور اُن سے اونچا ہوگیا تو عیینہ نے کہا: یہ آدمی کون دکھائی دے رہا ہے؟ انھوں نے کہا: ہمیں ساری تکلیف اس (نو عمر بچے) کے ہاتھوں اُٹھانی پڑی ہے۔ اس نے صبح سے اب تک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا ہے اور اس نے ہماری ہر چیز لے لی ہے اور ساری چیزیں اپنے پیچھے رکھ آیا ہے۔ عیینہ نے کہا کہ اگر اس کا خیال یہ نہ ہوتا کہ اس کے پیچھے کمک (آرہی) ہے تو تمہارا پیچھا چھوڑ جاتا۔ تم میں سے کچھ آدمی کھڑے ہو کر اس کے پاس چلے جائیں۔ چناںچہ چار آدمی کھڑے ہوئے اور پہاڑ پر چڑھنے لگے۔ جب وہ اتنے قریب آگئے کہ میری آواز اُن تک پہنچ سکتی تھی تو میں نے اُن سے کہا: کیا تم مجھے جانتے ہو؟ انھوں نے کہا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں ابنِ اکوع ہوں۔ اور اس ذات کی قسم جس نے حضرت محمد ﷺ کو عزّت عطا فرمائی! تم میں سے کوئی بھی مجھے بھاگ کر نہیں پکڑ سکتا اور میں بھاگوں تو تم میں سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا ہے۔ ان میں سے ایک آدمی نے کہا کہ میرا یہی گمان ہے۔ میں اپنی جگہ ایسے ہی بیٹھا رہایہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ کے سوار درختوں کے بیچ میں سے چلے آرہے ہیں اور اُن میں سب سے آگے حضرت اَخرم اَسدی ؓ تھے، اُن کے پیچھے حضور ﷺ کے شہ سوار حضرت ابو قتادہ ؓ اور اُن کے پیچھے حضرت مقداد بن اسود کندی ؓ تھے۔ وہ (چاروں) مشرک پشت پھیر کر بھاگ گئے اور میں نے پہاڑ سے نیچے اُتر کر حضرت اَخرم کے گھوڑے کی لگام پکڑلی اور میں نے اُن سے کہا: ان لوگوں سے بچ کر رہو۔ مجھے خطرہ ہے کہ یہ تمہارے ٹکڑے کر دیں گے اس لیے ذرا انتظار کر لو، یہاں تک کہ حضورﷺ اور آپ کے صحابہ آجائیں۔