حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
قریش جنگ ِاُحد کے لیے چلے تو جبیر نے مجھ سے کہا: اگر تم میرے چچا کے بدلے میں محمد (ﷺ) کے چچا حضرت حمزہ (ؓ) کو قتل کر دو گے تو تم آزاد ہو۔ اور میں ایک حبشی آدمی تھا اور حبشیوں کی طرح نیزہ پھینکا کرتا تھا اور میرا نشانہ بہت کم خطا جاتا تھا۔ میں بھی کافروں کے ساتھ اس سفر میں گیا۔ جب دونوں لشکروں میں مڈھ بھیڑ ہوئی تو میں حضرت حمزہ کو دیکھنے کے لیے نکلا اور میں بڑے غور سے انھیں دیکھتا رہا یعنی تلاش کرتا رہا، بالآخر میں نے اُن کو لشکر کے کنارے پر دیکھ لیا (اُن کے جسم پر گرد و غبار خوب پڑا ہوا تھا جس کی وجہ سے) وہ خاکستری رنگ کے اُونٹ کی طرح نظر آرہے تھے، اور وہ لوگوں کو اپنی تلوار سے اس زور سے ہلاک کر رہے تھے کہ اُن کے سامنے کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی تھی۔ اللہ کی قسم! میں اُن کے لیے تیار ہو رہا تھا، انھیں قتل کرنا چاہتا تھا اور کسی درخت یا بڑے پتھر کے پیچھے چھپتا پھر رہا تھا تاکہ وہ میرے قریب آجائیں کہ اتنے میں سِباع بن عبد العزّیٰ مجھ سے آگے ہوکر اُن کی طرف بڑھا۔ جب حضرت حمزہ نے اس کو دیکھا تو اس سے کہا: او عورتوں کا ختنہ کرنے والی عورت کے بیٹے! اور یہ کہہ کر اس پر تلوار کا ایسا وار کیا کہ ایک دم سر تن سے جدا کردیا، ایسے نظر آیا کہ بلا ارادہ ہی سرکاٹ دیا۔ پھر میں نے اپنے نیزے کو ہلایا اور جب مجھے اطمینان ہو گیا (کہ نیزہ نشانے پر جا کر لگے گا) تو میں نے اُن کی طرف نیزہ پھینکا جو اُن کی ناف کے نیچے جا کر اس زور سے لگا کہ دونوں ٹانگوں کے درمیان میں سے پیچھے نکل آیا۔ وہ میری طرف اُٹھنے لگے لیکن اُن پر بے ہوشی طاری ہوگئی۔ پھر میں نے اُن کو اور نیزے کو اسی حال پر چھوڑ دیا یہاں تک کہ اُن کا انتقال ہوگیا۔ پھر میں اُن کے قریب گیا اور اپنا نیزہ لے لیا اور پھر اپنے لشکر میں واپس آگیا اور جا کر بیٹھ گیا۔ حضرت حمزہ کو قتل کرنے کے علاوہ مجھے اور کوئی کام نہیں تھا، اور میں نے اُن کو اس لیے قتل کیا تھا تاکہ میں آزاد ہو جائوں۔ چناںچہ جب میں مکہ آیا تو میں آزاد ہو گیا۔ پھر میں وہیں ٹھہر ا رہا یہاں تک کہ جب حضور ﷺ نے مکہ کو فتح کر لیا تو میں بھاگ کر طائف چلا گیا اور وہاں جا کر ٹھہر گیا۔ پھرجب طائف کا وفد مسلمان ہونے کے لیے حضور ﷺ کی خدمت میں گیا تو سارے راستے مجھ پر بند ہوگئے اور میں نے کہا کہ میں شام چلا جائوںیا یمن یا کسی اور جگہ۔ میں ابھی اسی سوچ میں تھا کہ ایک آدمی نے مجھ سے کہا: تیرا بھلا ہو۔ اللہ کی قسم! جو بھی کلمۂ شہادت پڑھ کر حضرت محمد ﷺ کے دین میں داخل ہو جاتا ہے حضرت محمد ﷺ اسے قتل نہیں کرتے ہیں۔ جب اس آدمی نے یہ بات مجھے بتائی تو میں (طائف سے) چل پڑا یہاں تک کہ میں مدینہ حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچ گیا۔ (حضور ﷺ کو میرے آنے کا پتہ نہ چلا بلکہ) جب میں آپ کے سرہانے کھڑا ہو کرکلمۂ شہادت پڑھنے لگا تو آپ ایک دم چونکے۔ جب آپ نے مجھے دیکھا تو فرمایا: کیا تم وحشی ہو؟ میں نے کہا: یا رسول اللہ! جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: بیٹھ جائو اور مجھے تفصیل سے بتائو کہ تم نے حضرت حمزہ ؓ کو کیسے قتل