حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مجھے آپ میں خیر بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے ،اور اللہ جانتا ہے کہ میری نظر بالکل ٹھیک ہے۔ أَنْتَ الرَّسُوْلُ فَمَنْ یُّحْرَمْ نَوَافِلَہٗ وَالْوَجْہَ مِنْہُ فَقَدْ اَزْرٰی بِہِ الْقَدَرٗ آپ رسول ہیں، جو آپ کے عطا یا اور توجہ خاص سے محروم رہ گیا تو واقعی اس کی تقدیر کھوٹی ہے۔ پھر سارا لشکر روانہ ہو گیا اور حضور ﷺ بھی اُن کو رخصت فرمانے کے لیے (مدینہ سے) باہر تشریف لائے۔ چناںچہ آپ جب لشکر کو رخصت فرما کر واپس لوٹے تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ نے یہ شعر پڑھا : خَلَفَ السَّلَامُ عَلَی امْرِیٍٔ وَّدَّعْتُہٗ فِي النَّخْلِ خَیْرَ مُشَیِّعٍ وَّخَلِیْلٖ سلام رہے اس ذاتِ اَقدس پر جن کو میں نے کھجوروں کے باغ میں رخصت کیا ہے، وہ بہترین رخصت کرنے والے اور بہترین دوست ہیں۔ پھر یہ لشکر روانہ ہوگیا اور ملکِ شام کے شہر معان پہنچ کر پڑائو ڈالا۔ اور مسلمانوں کو یہ خبر ملی کہ ہِر قل ایک لاکھ رومی فوج لے کر ملکِ شام کے علاقہ بَلْقا کے شہر مآب میں ٹھہرا ہوا ہے اور لخم اور جُذام اور قین اوربہراء اور بَلِی قبیلوںکے ایک لاکھ آدمی جمع ہوکر ہر قل کے پاس پہنچ چکے ہیں اور ان کا سردار قبیلہ بَلِی کا ایک آدمی ہے جو اس کے قبیلہ اِرَاشہ سے تعلق رکھتا ہے اور اسے مالک بن زافلہ کہا جاتا ہے۔ جب مسلمانوں کو یہ خبر ملی تو وہ معان میں دو رات ٹھہر کر اپنے اس معاملہ میں غور کرتے رہے اور پھر یہ کہا کہ ہم اللہ کے رسول ﷺ کو خط لکھ کر اپنے دشمن کی تعداد بتاتے ہیں۔ پھر یا تو آپ ہماری مدد کے لیے اور آدمی بھیج دیں گے یا کسی اور مناسب بات کا ہمیں حکم فرمائیں گے جسے ہم پورا کریں گے۔ اس پر حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ نے لوگوں کی ہمت بڑھائی اور انھیں حوصلہ دلایا اور کہا: اے میری قوم! اللہ کی قسم! جس شہادت کو تم ناپسند سمجھ رہے ہو (حقیقت میں) تم اسی کی تلاش میں نکلے ہو۔ ہم لوگوں سے جنگ تعداد اور طاقت اور کثرت کی بنیاد پر نہیں کرتے ہیں، بلکہ ہم تو لوگوں سے جنگ اس دین کی بنیاد پر کرتے ہیں جس کے ذریعہ اللہ نے ہمیں عزّت عطا فرمائی ہے۔ لہٰذا چلو، دو کامیابیوں میں سے ایک کامیابی تو ضرور ملے گی یا تو دشمن پر غلبہ یا اللہ کے راستہ کی شہادت۔ اس پر لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم! ابنِ رواحہ نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔ چناںچہ لوگ وہاں سے آگے بڑھے تو جب بَلْقا علاقہ کی سرحد پر پہنچے تو ہِرَقل کے رومی اور عربی لشکر بَلْقا کی مشارف نامی بستی میں مسلمانوں کو ملے۔ پھر دشمن قریب آگیا اور مسلمان موتہ نامی بستی میں اکٹھے ہو گئے اور وہاں جنگ ہوئی۔ مسلمانوں نے دشمن سے لڑنے کے لیے اپنے لشکر کو ترتیب دی اور مسلمانوں کے لشکر کے میمنہ پر بنو عذرہ کے قُطْبہ بن