حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ہوں۔اور انھوں نے ان کافروں سے جنگ شروع کر دی۔ حضور ﷺ اور باقی صحابہ پہاڑ پر اور اوپر چڑھنے لگے۔ اتنے میں وہ اَنصاری صحابی شہید ہوگئے اور کافر پھر حضور ﷺ تک پہنچ گئے۔ حضور ﷺ ہر مرتبہ اپنا وہی فرمان ارشاد فرماتے۔ حضرت طلحہ ہر مرتبہ عرض کرتے: یا رسول اللہ! میں ہوں،حضور ﷺ انھیں روک دیتے، پھر کوئی اَنصار ی ان کافروں سے لڑنے کی اجازت مانگتا حضور ﷺ اسے اجازت دے دیتے، اور وہ اپنے سے پہلے والے کی طرح خوب زور سے لڑتا اور شہید ہوجاتا۔ یہاں تک کہ حضور ﷺ کے ساتھ صرف حضرت طلحہ باقی رہ گئے، تو مشرکین نے ان دونوں کو گھیر لیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا: ان سے مقابلہ کے لیے کون تیار ہے؟ حضرت طلحہ نے کہا: میں (حضور ﷺ نے اس مرتبہ اُن کو اجازت دے دی)۔ چناںچہ ان سے پہلے والوں نے سب نے جتنی جنگ کی انھوں نے اکیلے ان سب کے برابر جنگ کی، (لڑتے لڑتے) ان کے ہاتھوں کے پورے بہت زخمی ہوگئے تو انھوں نے کہا: حَسِّ(جیسے اُردو میں ایسے موقع پر ’’ہائے‘‘ کہاجاتاہے)۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اگر تم بسم اللہ کہتے تو فرشتے تمہیں اوپر اٹھا لیتے اور تمہیں لے کر آسمان میں داخل ہو جاتے اور لوگ تمہیں دیکھ رہے ہوتے۔ پھر حضور ﷺ پہاڑی پر چڑھ کر اپنے صحابہ کے پاس پہنچ گئے جو وہاں جمع تھے۔ 1 حضرت محمود بن لبید فرماتے ہیں کہ جب حضور ﷺ اُحد تشریف لے گئے تو حضرت حذیفہؓ کے والد یمان بن جابر اور حضرت ثابت بن وقش بن زعوراء ؓ عورتوں اور بچوں کے ساتھ قلعہ پر چڑھ گئے۔ یہ دونوں حضرات بوڑھے تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: تیرا باپ نہ رہے! ہم کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں۔ اللہ کی قسم! ہم میں سے ہر ایک کی اتنی عمر باقی رہ گئی ہے جتنی ایک گدھے کی پیاس (تمام جانوروں میں گدھا سب سے کم پیاس برداشت کر سکتا ہے) یعنی بہت تھوڑی عمر باقی رہ گئی ہے۔ ہم آج یا کل مر جائیں گے۔کیوں نہ ہم اپنی تلواریں لے کر حضور ﷺ کے ساتھ (لڑائی میں) شریک ہوجائیں۔ چناںچہ یہ دونوں حضرات مسلمانوں کے لشکر میں شامل ہو گئے اور مسلمان اُن کو پہچانتے نہیں تھے۔ حضرت ثابت بن وقش کو تو مشرکین نے قتل کر دیا، اور حضرت ابو حذیفہ پر مسلمانوں کی تلواریں چلیں اور مسلمانوں نے اُن کو قتل کر دیا، کیوںکہ مسلمان ان کو پہچانتے نہیں تھے۔ چناںچہ حضرت حذیفہ ؓ نے پکارا: یہ میرے والد ہیں، یہ میرے والد ہیں (انھیں نہ مارو مارنے والے!) مسلمانوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم اُن کو پہچانتے نہیں تھے۔ اور یہ حضرات اپنی اس بات میں سچے تھے۔ اس پر حضرت حذیفہ نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو معاف فرمائے اور وہ سب سے زیادہ رحم فرمانے والے ہیں۔ حضور ﷺ نے حضرت حذیفہ کو اُن کے والد کا خون بَہَا دینا چاہا لیکن انھوں نے مسلمانوں کو خون بَہَا معاف کر دیا۔ اس سے حضور ﷺ کے نزدیک حضرت حذیفہ ؓ کا مرتبہ اور بڑھ گیا ۔2