حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جمع تھے (جہاں حضرت ابو عبید ثقفی ۱۳ھ میں اپنے لشکر سمیت شہید ہوئے تھے، اور حضرت ابو عبید کے لشکر کے) تمام آدمی شہید کر دیے گئے تھے صرف دو یا تین آدمی بچے تھے۔ انھوں نے اپنی تلواریں لے کر اس زور سے دشمن پر حملہ کیا کہ اُن کی صفیں چیر کے باہر نکل آئے اور یوں بچ گئے۔ اور پھر یہ تینوں حضرات مدینہ آئے۔ ایک مرتبہ یہ تینوں حضرات ان شہید ہونے والے کا تذکرہ کر رہے تھے کہ اتنے میں حضرت عمر ؓ باہر نکلے اور انھوں نے کہا کہ مجھے بتائو تم لوگ اُن کے بارے میں کیا کہہ رہے تھے؟ انھوں نے کہا: ہم ان کے بارے میں اِستغفار کر رہے تھے اور اُن کے لیے دعا کر رہے تھے۔ حضرت عمر نے فرمایا: یا تو تم نے ان کے بارے میں جو کہا تھا وہ مجھے بتادو، ورنہ میں تمہیں سخت سزا دوں گا۔ انھوں نے کہا: ہم نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ یہ لوگ شہید ہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں! اور اس ذات کی قسم جس نے حضرت محمد ﷺ کو حق دے کر بھیجا! اور جس کے حکم کے بغیر قیامت قائم نہیں ہوگی! اللہ کے نبی کے علاوہ اور کسی بھی مرنے والے کو اللہ کے ہاں کیا ملا ہے اسے کوئی بھی زندہ انسان نہیں جانتا ہے، البتہ اللہ کے نبی کے بارے میں یقینًا معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے ہیں۔اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں! اس ذات کی قسم جس نے حق اور ہدایت دے کر محمد (ﷺ) کو بھیجا! جس کے حکم کے بغیر قیامت قائم نہ ہو گی! کوئی آدمی ریا اور شہرت کی وجہ سے لڑتا ہے، کوئی آدمی قومی غیرت کی وجہ سے لڑتا ہے، اور کوئی دنیا حاصل کرنے کے لیے لڑتا ہے، اور کوئی مال لینے کے لیے۔ اور اُن تمام لڑنے والوں کو اللہ کے ہاں وہی ملے گا جو اُن کے دلوں میں ہے۔2 حضرت مالک بن اَوس بن حدثان ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم لوگوں نے ایک لشکر کا تذکرہ کیا جو حضرت عمر ؓ کے زمانے میں اللہ کے راستہ میں شہید ہوگیا تھا۔ چناںچہ ہم میں سے کسی نے تو یہ کہا کہ یہ سب اللہ کے لیے کام کرنے والے تھے اور اللہ کے راستہ میں نکلے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ ان کو ضرور اَجر وثواب عطا فرمائیں گے۔ اور کسی نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ اُن کو قیامت کے دن اسی نیت پر اٹھائیں گے جس پر اللہ نے اُن کو موت دی ہے۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ہاں، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اللہ ان کو اسی نیت پر اٹھائیں گے جس پر اللہ نے ان کو موت دی ہے، کیوںکہ کوئی آدمی تو دِکھلاوے اور شہرت کے لیے لڑتا ہے، اور کوئی دنیا لینے کے لیے لڑتا ہے، اور کسی کو جنگ سے بچنے کا راستہ نہیں ملتا ہے اس لیے وہ مجبور ہو کر لڑتا ہے، اور کوئی اللہ سے ثواب لینے کے لیے لڑتا ہے اور ہر طرح کی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے۔ یہ (ثواب کے لیے لڑنے والے) ہی شہید ہیں، لیکن مجھے بھی معلوم نہیں ہے کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا۔ ہاں! اتنی بات مجھے ضرور معلوم ہے کہ اس قبر والے یعنی رسول اللہ ﷺ کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو چکے ہیں۔ 1