حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے کہا: جائو،پھر حضور ﷺ سے پوچھو۔ چناںچہ اس نے تیسری مرتبہ حضور ﷺ کی خدمت میں جا کر عرض کیا کہ ایک آدمی جہاد فی سبیل اللہ میں اس نیت سے جانا چاہتا ہے کہ اسے دنیا کا کچھ سامان مل جائے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اسے کوئی اَجر نہیں ملے گا۔ 3 حضرت ابو اُمامہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ ذرا یہ بتائیے کہ ایک آدمی غزوہ میں شریک ہو کر ثواب بھی حاصل کرنا چاہتا ہے اور لوگوں میں شہرت بھی، تو اسے کیا ملے گا؟ حضور ﷺ نے فرمایا: اسے کچھ نہیں ملے گا۔ اس آدمی نے اپنا سوال تین مرتبہ دُہرایا۔ حضور ﷺ ہر دفعہ اسے یہی جواب دیتے رہے کہ اسے کچھ نہیں ملے گا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ صرف وہی عمل قبول فرماتے ہیں جو خا لص ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا گیا ہو۔ 1 حضرت عاصم بن عمر بن قتادہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں میں ایک پردیسی آدمی رہتا تھا اسے کوئی جانتا نہیں تھا کہ وہ کون ہے؟ لوگ اسے قزمان کہتے تھے۔ جب بھی اس کا تذکرہ ہوتا تو حضور ﷺ فرماتے کہ یہ تو دوزخ والوں میں سے ہے۔ جنگ ِاُحد کے دن اس نے خوب زور شور سے لڑائی کی اور اس نے اکیلے ہی سات آٹھ مشرکوں کو قتل کر ڈالا اور وہ بڑا جنگ جو اور بہادر تھا۔ آخر وہ زخموں سے نڈھال ہو گیا تو اسے بنو ظفر کے محلہ میں اُٹھا کر لایا گیا تو بہت سے مسلمان اسے کہنے لگے: اے قزمان! آج تو تم بڑی بہادری سے لڑے ہو۔ تمہیں خوش خبری ہو! اس نے کہا: مجھے کس چیز کی خوش خبری ہو؟ اللہ کی قسم! میں نے تو صرف اپنی قوم کی ناموری کے لیے یہ لڑائی لڑی ہے، اگر میرا مقصد یہ نہ ہوتا تو میں ہر گز نہ لڑتا۔ چناںچہ جب اس کے زخموں کی تکلیف بڑھ گئی تو اس نے اپنی ترکش میں سے ایک تیر نکالا اور اس سے خود کشی کرلی۔2 حضرت ابو ہریرہ ؓ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے ایسا آدمی بتائو جو جنت میں تو جائے گا لیکن اس نے نماز کوئی نہیں پڑھی؟ جب لوگ اس کے بارے میں لا علمی کا اظہار کرتے تو اُن سے پوچھتے کہ وہ کون ہے؟ تو وہ فرماتے کہ وہ بنو عبد الاشہل کے اُصَیرِم ہیں جن کا نام عمرو بن ثابت بن وَقش ہے۔ حضرت حصین فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت محمود بن لبید ؓ سے پوچھا کہ حضرت اُصَیرِم کا کیا قصہ ہے؟ تو انھوں نے بتایا کہ اُن کی قوم اُن کو اسلام کی دعوت دیا کرتی تھی لیکن یہ ہمیشہ اِنکار کردیتے تھے۔ جنگ ِاُحد کے دن ان کے د ل میں ایک دم اسلام لانے کاخیال پیدا ہوا اور وہ مسلمان ہوگئے اور اپنی تلوار لے کر چل پڑے اور ایک کنارے سے مجمع میں جا کر لڑائی شروع کر دی یہاں تک کہ زخموں سے نڈھال ہوکر گر پڑے۔ (لڑائی کے بعد) قبیلہ بنو عبد الاشہل کے لوگ میدانِ جنگ میں شہید ہونے والے اپنے سا تھیوں کو تلاش کرنے لگے تو اُن کی نگاہ