حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اسے دیکھا تو جیسے حضور ﷺ نے بتایا تھا واقعی مجھے اپنے جسم میں کپکپی محسوس ہوئی۔ میں اس کی طرف چل پڑا اور مجھے یہ ڈر لگا کہ کہیں ایسے نہ ہو کہ اسے قتل کرنے کی کوشش میں کچھ دیر لگ جائے اور نمازِ عصر جاتی رہے۔ چناںچہ میں نے نماز شروع کر دی۔ میں اس کی طرف چلتا بھی جا رہا تھا اور اشارے سے رکوع سجدہ بھی کرتا جا رہا تھا۔ میں جب اس کے پاس پہنچا تو اس نے کہا: یہ آدمی کون ہے؟ میں نے کہا: میں عرب کا ایک آدمی ہوں، جس نے یہ سنا ہے کہ تم لوگوں کو اس آدمی پر (یعنی حضورﷺ پر) چڑھائی کرنے کے لیے جمع کر رہے ہو، اس وجہ سے تمہارے پاس آیا ہوں۔ اس نے کہا: ہاں! میں اسی میں لگا ہوا ہوں۔ چناںچہ میں تھوڑی دیر اس کے ساتھ چلا۔ جب مجھے اس پر پوری طرح قابو حاصل ہو گیا تو میں نے تلوار کا وار کر کے اسے قتل کر دیا۔ پھر میں وہاں سے چل پڑا اور اس کی ہو دہ نشین عورتیں اس پر جھکی ہوئی تھیں۔ جب میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا: یہ چہرہ کامیاب ہوگیا۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! میں اسے قتل کر آیا ہوں۔ آپ نے فرمایا : تم ٹھیک کہتے ہو۔ پھر حضور ﷺ میرے ساتھ کھڑے ہوئے اور مجھے اپنے گھر لے گئے اور مجھے ایک لاٹھی دے کر فرمایا: اے عبداللہ بن اُنیس! اسے اپنے پاس سنبھال کر رکھنا۔ میں لاٹھی لے کر لوگوں کے پاس باہر آیا۔ لوگوں نے پوچھا: یہ لاٹھی کیا ہے ؟ میں نے کہا: یہ لاٹھی حضور ﷺ نے مجھے دی ہے، اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں اسے سنبھال کر رکھوں۔ لوگوں نے کہا کہ تم واپس جا کر کیوں نہیں حضور ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھ لیتے۔ چناںچہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں واپس گیا اور میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے مجھے یہ لاٹھی کیوں دی ہے ؟ آپ نے فرمایا: یہ قیامت کے دن میرے اور تمہارے درمیان نشانی ہوگی، کیوںکہ اس دن لاٹھی والے لوگ بہت کم ہوں گے (یا نیک اعمال کا سہارا لینے والے بہت کم ہوں گے)۔ چناںچہ حضرت عبد اللہ نے اس لاٹھی کو اپنی تلوار کے ساتھ باندھ لیا اور وہ لاٹھی زندگی بھر اُن کے ساتھ رہی۔ جب اُن کے انتقال کا وقت آیا تو اُن کی وصیت کے مطابق وہ لاٹھی اُن کے کفن میں رکھ دی گئی اور اسے بھی اُن کے ساتھ دفن کیا گیا ۔ 1 حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ جب جنگِ یر موک کے دن دونوں لشکر ایک دوسرے کے قریب ہوئے تو (رومی سپہ سالار) قُبُقْلار نے ایک عربی آدمی کو (جاسوسی کے لیے) بھیجا۔ اس حدیث کے آخر میں یہ ہے کہ قُبُقْلار نے اس (جاسوس) سے پوچھا : وہاں کیا دیکھ کر آئے ہو؟ اس نے کہا کہ وہ مسلمان رات میں عبادت گزارہیں اور دن میں شہ سوار ہیں۔ 1 حضرت ابو اسحاق سے ایک لمبی حدیث مروی ہے جس میں یہ ہے کہ ہِرَقْل نے (اپنے لوگوں کو) کہا: پھر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ ہمیشہ شکست کھاتے ہو؟ تو اُن کے بڑے سرداروں میں سے ایک بوڑھے نے کہا کہ ہم اس وجہ سے شکست کھا جاتے ہیں کہ وہ (مسلمان) رات کو عبادت کرتے ہیں اور دن کو روزہ رکھتے ہیں۔ 2