حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بات حضرت عمر ؓ عبد اللہ بن اُبی کے بارے میں کہہ رہے تھے۔ حضور ﷺ نے حضرت عمر سے فرمایا: اگر میں تمہیں اس کو قتل کرنے کا حکم دوں تو کیا تم اسے قتل کر دو گے؟ حضرت عمر نے کہا: جی ہاں۔ اللہ کی قسم! اگر آپ مجھے اس کے قتل کا حکم دیں تو میں اس کی ضرور گردن اُڑا دوں گا۔ آپ نے فرمایا : بیٹھ جائو۔ پھر اَنصار کے قبیلہ بنو عبدالاشہل کے ایک اَنصاری حضرت اُسید بن حضیر ؓ نے حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ آدمی لوگوں کو فتنہ میں ڈال رہا ہے، آپ اجازت دیں میں اس کی گردن اُڑا دوں۔ حضور ﷺ نے ان سے پوچھا: اگر میں تمہیں اسے قتل کرنے کا حکم دوں تو کیا تم اسے قتل کر دوگے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔ اللہ کی قسم! اگر آپ مجھے اسے قتل کرنے کا حکم دیں تو میں اس کے کانوں کے بندوں کے نیچے گردن پر تلوار کی کاری ضرب ضرور لگائوں گا۔ آپ نے فرمایا: بیٹھ جائو۔ پھر آپ نے فرمایا کہ لوگوں میں اعلان کر دو کہ اب یہاں سے چلیں۔ چناںچہ آپ دوپہر کے وقت لوگوں کو لے کر چل پڑے اورسارا دن اور ساری رات چلتے رہے اور اگلے روز بھی دن چڑھے تک چلتے رہے۔ پھر ایک جگہ آرام فرمانے کے لیے ٹھہرے، پھر دوپہر کے وقت لوگوں کو لے کر چل پڑے۔ جب قَفَامُشَلَّلسے چلے ہوئے تیسرا دن ہوگیا تب اس دن صبح کے وقت آپ نے پڑائو ڈالا۔ جب آپ مدینہ پہنچ گئے تو آپ نے آدمی بھیج کر حضرت عمر کو بلایا اور (ان کے آنے پر ان سے) فرمایا: اے عمر! اگر میں تمہیں اسے قتل کرنے کا حکم دے دیتا تو کیا تم اسے قتل کر دیتے؟ حضرت عمر نے کہا: جی ہاں۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تم اسے اس دن قتل کر دیتے تو ( چوں کہ واقعہ تازہ پیش آیا تھا اس وجہ سے) اس وقت ( اَنصار کے) بہت سے لوگ اس میں اپنی ذلت محسوس کرتے۔ اور اب ( چوں کہ مسلسل سفر کرنے کی وجہ سے جذبات ٹھنڈے پڑ گئے ہیں اس لیے) اگر آج میں ان ہی لوگوں کو اسے قتل کرنے کا حکم دوں تو وہ اسے ضرور قتل کردیں گے۔ ( اور اگر میں اسے وہاں قتل کرا دیتا) تو لوگ یہ کہتے کہ میں اپنے ساتھیوں پر ٹوٹ پڑا ہوں اور ( انھیں گھروں سے نکال کر اللہ کے راستہ میں لے جاتا ہوں اور وہاں) انھیں باندھ کر قتل کر دیتا ہوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں: {ہُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لَا تُنفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْا} سے لے کر {یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَا اِلَی الْمَدِیْنَۃِ} تک۔1 وہی ہیں جو کہتے ہیں مت خرچ کرو ان پر جو پاس رہتے ہیں رسول اللہ(ﷺ) کے یہاں تک کہ متفرق ہو جائیں ‘‘…سے لے کر …’’کہتے ہیں البتہ اگر ہم پھر گئے مدینہ کو۔2 ابنِ اسحاق نے اس قصہ کو تفصیل سے بیان کیا ہے، اس میں یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ لوگوں کو لے کر سارا دن چلتے رہے یہاں تک کہ شام ہوگئی، اور ساری رات چلتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی، اور اگلے دن بھی چلتے رہے یہاں تک کہ جب لوگوں کو دھوپ کی وجہ سے تکلیف ہونے لگی تو آپ نے ایک جگہ پڑائو ڈالا۔ وہاں سے اُترتے ہی (زیادہ تھکن کی وجہ سے)