حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مہاجرین! میری مدد کے لیے آئو۔ حضور ﷺ نے یہ آوازیں سن لیں اور فرمایا: یہ زمانۂ جاہلیت والی باتیں کیوں ہو رہی ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایک مہاجری نے ایک اَنصاری کی پیٹھ پر مُکّا مار دیا۔ آپ نے فرمایا: ان باتوں کو چھوڑو، یہ تو بد بودار باتیں ہیں۔ عبداللہ بن اُبی (منافق) نے یہ باتیں سن کر کہا: کیا ان مہاجرین نے ہمارے آدمی کو دبا کر اپنے آدمی کو اوپر کیا ہے؟ غور سے سنو! اللہ کی قسم! اگر ہم مدینہ واپس چلے گئے تو عزّت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال باہر کرے گا۔ حضور ﷺ کو یہ بات پہنچ گئی تو حضرت عمر ؓ نے کھڑے ہو کر کہا: یا رسول اللہ! آپ اجازت دیں تو میں اس منافق کی گردن اُڑا دیتا ہوں، آپ نے فرمایا:ا سے رہنے دو، (اسے قتل کرنے سے) کہیں لوگوں میں یہ مشہور نہ ہو جائے کہ محمد (ﷺ) اپنے ساتھیوں کو قتل کر دیتے ہیں۔ جب مہاجرین شروع میں مدینہ آئے تھے اس وقت اَنصار کی تعداد مہاجرین سے زیادہ تھی، بعد میں مہاجرین کی تعداد زیادہ ہو گئی۔ 2 حضرت عروہ بن زُبیر اور حضرت عمرو بن ثابت اَنصاری ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ غزوۂ مریسیع میں تشریف لے گئے۔ یہ وہی غزوہ ہے جس میں آپ نے منات بت کو گرایا تھا۔ یہ بت قَفَامُشَلَّلمقام اور سمندر کے درمیان تھا۔ چناںچہ حضور ﷺ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کو بھیجا تھا اور انھوں نے جا کر منات بت توڑا تھا۔ اس غزوہ میں دو مسلمان آپس میں لڑ پڑے۔ ایک مہاجرین میں سے تھے اور دوسرے قبیلہ بہزکے تھے، یہ قبیلہ اَنصار کا حلیف تھا۔ مہاجری اس بہزی کو گرا کر اس پر چڑھ بیٹھے۔ اس بہزی آدمی نے کہا: اے جماعتِ اَنصار! اس پر کچھ اَنصاری حضرات اس کی مدد کو آئے۔ اور اس مہاجری نے بھی کہا: اے جماعتِ مہاجرین! اس پر کچھ مہاجرین اس کی مدد کو آئے۔ اس طرح ان مہاجرین اور اَنصار کے درمیان کچھ لڑائی سی ہوگئی۔ پھر لوگوں نے بیچ بچائو کرا دیا۔ پھر سارے منافقین اور دلوں میں کھوٹ رکھنے والے لوگ عبد اللہ بن اُبی بن سلول منافق کے پاس جا کر کہنے لگے: پہلے تو تم سے بڑی اُمیدیں وابستہ ہوتی تھیں اور تم ہماری طرف سے دفاع کیا کرتے تھے، اب تم ایسے ہوگئے ہو کہ کسی کو نہ نقصان پہنچاسکتے ہو اور نہ نفع۔ ان جَلاَبِیْب یعنی اِیرے غیرے لوگوں نے ہمارے خلاف ایک دوسرے کی خوب مدد کی۔ منافقین ہر نئے ہجرت کر کے آنے والے کو جَلاَبِیْب یعنی اِیرا غیرا کہا کرتے تھے۔ اللہ کے دشمن عبداللہ بن اُبی نے کہا: اللہ کی قسم! اگر ہم مدینہ واپس چلے گئے تو عزّت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا۔ منافقوں میں سے مالک بن دُخشن نے کہا: کیا میں نے تم کو نہیں کہا تھا کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہیں اُن پر خرچ نہ کرو تاکہ یہ سب اِدھر اُدھر بکھر جائیں۔ یہ باتیں سن کر حضرت عمر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ آدمی لوگوں کو فتنہ میں ڈال رہا ہے، مجھے اِجازت دیں میں اس کی گردن اڑا دوں۔ یہ