حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شعبی نے اس حدیث کو یوں بیان کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ سے کہا گیا کہ ان کا امیر ایسے آدمی کو بنائیں جسے حضور ﷺ کی (قدیمی) صحبت حاصل ہو۔ حضرت عمر نے فرمایا: (پرانے) صحابہ کو فضیلت اس وجہ سے حاصل تھی کہ وہ دشمن کی طرف تیزی سے جاتے تھے اور منکرینِ اسلام کے لیے کافی ہو جا تے تھے۔ لہٰذا اگر اب کوئی اور ان کی یہ خصو صی صفات اختیار کرلے اور ان جیسے کارنامے انجام دینے لگ جائے اور خود (پرانے) صحابہ ڈھیلے اور سست پڑجائیں تو ہلکے ہوں یا بھاری ہر حال میں نکلنے والے (دوسرے) لوگ اس اِمارت کے صحابہ سے زیادہ حق دار ہو جائیں گے۔ اس لیے اللہ کی قسم! میں ان کا امیر اسے بناؤں گا جس نے دعوت پر سب سے پہلے لبیک کہی تھی۔ چناںچہ حضرت ابو عبید کو امیر بنایا اور انھیں ا پنے لشکر کے بارے میں ہدایات دیں۔ 1 حضرت عمر بن عبدالعزیز بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر ؓ کو حضرت ابو عبید بن مسعود ؓ کے شہید ہوجانے کی اور فارس والوں کے آلِ کسریٰ میں سے کسی ایک آدمی پر مجتمع ہو جانے کی خبر ملی تو انھوں نے مہاجرین اور اَنصار میں (جہاد کا) اعلان کرایا (کہ سب مدینہ سے باہر صِرَار مقام پر جمع ہوجائیں)۔ اور پھر حضرت عمر مدینہ سے چل کر صِرَار مقام پر پہنچ گئے اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓکو مقام ِ اَعوص تک جانے کے لیے آگے بھیج دیا، اور لشکر کے میمنہ پر حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓکو اور مَیْسرہ پر حضرت زُبیر بن عوّام ؓکو مقرر فرمایا، اور حضرت علی ؓکو مدینہ میں اپنا نائب مقرر فرمایا۔ اور لوگوں سے (اپنے فارس جانے کے بارے میں) مشورہ فرمایا، تمام لوگوں نے فارس جانے کا مشورہ دیا اور صِرَار پہنچنے سے پہلے انھوں نے اس بارے میں کوئی مشورہ نہ کیا۔ اتنے میں حضرت طلحہ بھی (اَعوص مقام سے) واپس آگئے ۔ پھر اہلِ شوریٰ سے مشورہ فرمایا۔ حضرت طلحہ نے بھی عام لوگوں کی طرح (فارس جانے کی) رائے دی، لیکن حضرت عبد الرحمن بن عوف حضرت عمر کو (فارس جانے سے) روکنے والوں میں تھے۔ حضرت عبد الر حمن ؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے بعد نہ اس دن سے پہلے اور نہ اس دن کے بعد کسی پر اپنے ماں باپ کو قربان کرنے کے الفاظ کہے ( بس اس دن حضرت عمر ؓ کے بارے میں یہ الفاظ کہے)۔ چناںچہ میں نے کہا: اے امیر المؤمنین! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ یہ کام میرے حوالے کر دیں اور خود (مدینہ) ٹھہر جائیں اور لشکر کو روانہ کریں۔ میں نے (آج تک) یہی دیکھا ہے کہ ہمیشہ اللہ کا فیصلہ آپ کے لشکروں کے حق میں ہوتا ہے، لیکن آپ کے لشکر کو شکست ہو جانا خود آپ کے شکست کھا جانے (کی طرح نقصان دہ) نہیں ہے، کیوںکہ اگر شروع ہی میں آپ شہید ہو گئے یا آپ کو شکست ہو گئی تو مجھے ڈر ہے کہ مسلمان ہمیشہ کے لیے اَللّٰہُ أَکْبَرُ کہنا اور لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کی گواہی دینا چھوڑ دیں گے (ان کے حوصلے ہمیشہ کے لیے پست ہو جائیں گے۔ حضرت عمرنے حضرت عبدالرحمن کے مشورے کو قبول فرمایا اور خود