حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ٹکڑوں میں سے بہتر ین ٹکڑا ہم نے اُن سے لے لیا ہے، اور ہم نے اُن سے آدھا ملک لے لیا ہے، اور ہم نے اُن کو خوب نقصان پہنچایا ہے، اور ہمارے آدمی اُن پر جری ہو گئے ہیں، اور اِن شاء اللہ بعد والا علاقہ بھی ہمیں مل جائے گا۔ پھر حضرت عمر نے لوگوں میں کھڑے ہوکر فرمایا: سر زمینِ حجاز تمہارے رہنے کی اصلی جگہ نہیں ہے، وہ تو تمہیں جہاں گھاس ملتا ہے وہاں جا کر تم کچھ دن رہ لیتے ہو۔ اور حجاز والے اس سر زمین میں اسی طرح ہی گزارا کر سکتے ہیں۔ جو مہاجرین اللہ کے دین کے لیے ایک دم دوڑکر آیا کرتے تھے اور آج اللہ کے وعدے سے کہاں دور جا پڑے ہیں؟ تم اس سر زمین میں جہاد کے لیے چلو جس کے بارے میں اللہ نے تم سے (قرآن میں ) وعدہ کیا ہے کہ وہ تمہیں اس زمین کا وارث بنائے گا، کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}1 تاکہ اللہ اپنے دین کو تمام دینوں پر غالب کردے۔ اور اللہ اپنے دین کو ضرور غالب کریں گے اور اپنے مددگار کو عزّت دیں گے اور اپنے دین والوں کو تمام قوموں کی میراث کا وارث بنائیں گے۔اللہ کے نیک بندے کہاں ہیں ؟ اس دعوت پر سب سے پہلے حضرت ابوعبید بن مسعود ؓ نے لبیک کہی، پھر سعد بن عبید یاسَلِیْط بن قیس ؓ نے ( یوں ایک ایک کر کے بڑا لشکر تیار ہو گیا)۔ جب یہ تمام حضرات جمع ہوگئے تو حضرت عمرسے کہا گیا کہ مہاجرین اور اَنصار میں سے کسی پرانے کو اُن کا امیر بنا دیں۔ فرمایا: نہیں، اللہ کی قسم! (آج) میں ایسے نہیں کروں گا، کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بلندی اس وجہ سے دی تھی کہ تم ہر نیکی میں سبقت کر تے تھے اور دشمن کی طرف تیزی سے چلتے تھے، لہٰذا جب تم بزدل بن گئے ہو اور دشمن سے مقابلہ تمہیں برا لگنے لگا ہے تو اب تم سے زیا دہ امیر بننے کا حق دار وہ آدمی ہے جو دشمن کی طرف جانے میں سبقت لے جائے اور جانے کی دعوت کو پہلے قبول کرے۔ لہٰذا میں ان کا امیر اسی کو بنا ؤ ں گا جس نے ( میری دعوت پر) سب سے پہلے لبیک کہی تھی۔ پھر حضرت ابو عبید ؓ، حضرت سَلِیْط اور حضرت سعد ؓ کو بلاکرکہا: تم دونوں اگر (دعوت پر لبیک کہنے میں ) ابو عبید سے سبقت لے جاتے تو میں تم دونوں کو امیر بنا دیتا۔ پرانے ہونے کی صفت تو تمہیں حاصل ہے ہی، اس طرح تمہیں اِمارت بھی مل جاتی۔ چناںچہ حضرت عمر نے اس لشکر کا حضرت ابو عبیدکو امیر بنایا اور ان سے فرمایا: نبی کریم ﷺ کے صحابہ کی بات ضرور سننا اور ان کو مشورہ میں شریک رکھنا اور جب تک تحقیق کر کے تسلی نہ کر لو کسی کام کے فیصلہ میں جلد بازی سے کام نہ لینا، کیوںکہ یہ جنگ ہے اس میں وہی آدمی ٹھیک چل سکتا ہے جو سنجیدہ، دِھیما اور موقع شناس ہو، اسے معلوم ہو کہ کب دشمن پر حملہ کرنا چاہیے اور کب رُک جانا چاہیے۔ 2