حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہونے لگے اور عجم کے لوگ ڈرانے دھمکانے لگے۔ اور انھوں نے آپس میں نِہاوند میں جمع ہونے کا معاہدہ کر لیا اور یہ کہا کہ یہ آدمی مرگیا ہے جس کی وجہ سے عربوں کی مدد ہو رہی تھی۔ چناںچہ حضرت ابوبکر ؓ نے مہا جرین اور اَنصار کو جمع کرکے فرمایا: عربوں نے زکوٰۃ کی بکریا ں اور اُونٹ روک لیے ہیں اور اپنے دین سے منہ موڑ گئے ہیں۔ ان عجم والوں نے تم سے جنگ کرنے کے لیے نِہاوند میں اِکٹھا ہونا آپس میں طے کرلیا ہے۔ اور وہ یوں سمجھتے ہیں کہ جس ذات ِاَقدس کی وجہ سے تمہاری مدد کی جا رہی تھی وہ دنیا سے رخصت ہوگئی۔ اب آپ لوگ مجھے مشورہ دیں ( کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے) کیوں کہ میں بھی تم میں کا ایک آدمی ہوں اور اس آزمایش کا تم سب سے زیا دہ بوجھ مجھ پر ہے۔ چناںچہ وہ حضرات بہت دیر تک گردن جھکا کر سوچتے رہے۔ پھر حضرت عمر بن خطّاب ؓ بولے کہ اللہ کی قسم! اے خلیفۂ رسول اللہ! میرا خیال یہ ہے کہ آپ عربوں سے نماز قبول کرلیں اور زکوٰۃ کو اُن پر چھوڑ دیں، کیوںکہ وہ ابھی ابھی جاہلیت چھوڑ کر آئے ہیں۔ اِسلام نے ان کو ابھی پوری طرح تیار نہیں کیا (ان کی دینی تربیت کا پورا موقع نہیں مل سکا)، پھر یا تو اللہ تعالیٰ انہیں خیر کی طرف واپس لے آئیں گے، یا اللہ تعالیٰ اِسلام کو عزّت عطا فرمائیں گے تو ہم میں اُن سے لڑنے کی طاقت پیدا ہوجائے گی۔ ان بقیہ مہاجرین اور اَنصار میں تمام عرب اور عجم سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے۔ پھر حضرت ابوبکر نے حضرت عثمان ؓ کی طرف اِلتفات فرمایا انھوں نے بھی ایسا ہی فرمایا، اور حضرت علی ؓ نے بھی ایسا ہی فرمایا، حضراتِ مہاجرین نے بھی ایسی ہی رائے دی۔ پھر حضرت ابوبکر نے حضراتِ اَنصار کی طرف اِلتفات فرمایا انھوں نے بھی یہی رائے دی۔ یہ دیکھ کر حضرت ابوبکر منبر پر تشریف لے گئے اور اللہ کی حمد وثنا بیان کی اور پھر فرمایا: اَما بعد! جب اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا تو اس وقت حق بہت کم اور بے سہارا تھا، اور اِسلام بالکل اجنبی اور ٹھکرایا ہوا تھا۔ اس کی رسی کمزور ہو چکی تھی، اس کے ماننے والے بہت کم تھے۔ ان سب کو اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے ذریعہ سے جمع فرمایا اور ان کو باقی رہنے والی سب سے افضل اُمت بنایا۔ اللہ کی قسم! میں اللہ کی بات کو لے کر کھڑا رہوں گا اور اللہ کے راستہ میں جہاد کرتا رہوں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کو پورا فرما دے، اور اپنے عہد کو ہمارے لیے وفا فرما دے۔ چناںچہ ہم میں سے جو مارا جائے گا وہ شہید ہو کر جنت میں جائے گا، اور ہم میں سے جو باقی رہے گا وہ اللہ کی زمین میں اللہ کا خلیفہ بن کر اور اللہ کی عبادت کا وارث بن کر رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے حق کو مضبوط فرمایا۔ اللہ تعا لیٰ نے فرمایا ہے اور اُن کے فرمان کے خلاف نہیں ہوسکتاہے: {وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ}۔1 وعدہ کر لیا اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں ایمان لائے ہیں اور کیے ہیں انھوں نے نیک کام، البتہ پیچھے حاکم کر دے گا اُن کو ملک میںجیسا حاکم کیا تھا ان سے اگلوں کو۔