حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دینے لگ جائیں پھر تم میں سے جو واپس آنا چاہے وہ واپس آجائے۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر مدینہ واپس ہوئے۔1 حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکر ؓ کی بیعت ہو گئی اور اَنصار نے جس امرِ خلافت کے بارے میں اختلاف کیا تھا وہ سب اس پر متفق ہو گئے، اور حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ حضرت اُسامہ کے لشکر (کی روانگی) کا کام مکمل ہو جانا چاہیے۔ عرب کے لوگ مرتد ہوگئے، کوئی سارا قبیلہ مرتد ہو گیا، کسی قبیلہ کے کچھ لوگ مرتد ہوگئے، اور نفاق ظاہر ہو گیا اور یہودیت اور نصرانیت سر اُٹھا کر دیکھنے لگی۔ اور چوں کہ مسلمانوں کے نبی کا ابھی انتقال ہوا تھا اور ان کی تعداد کم تھی اور ان کے دشمن کی تعداد زیادہ تھی، اس وجہ سے مسلمانوںکی حالت اس بکری جیسی تھی جو کہ سردی کی رات میں بارش میں بھیگ گئی ہو۔ تو لوگوں نے حضرت ابوبکر سے کہا کہ لے دے کر بس یہی مسلمان ہیں۔ اور جیسے کہ آپ دیکھ رہے ہیں عربوں نے آپ کی اِطاعت چھوڑ دی ہے، اس لیے آپ کے لیے مناسب نہیں کہ مسلمانوں کی اس جماعت (لشکرِ اُسامہ) کو اپنے سے جدا کر کے بھیج دیں۔ تو حضرت ابو بکر نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگر مجھے یہ یقین ہو جائے کہ درندے مجھے اُٹھا کر لے جائیں گے تو بھی میں حضورِ اَقدس ﷺ کے حکم کے مطابق اُسامہ کے لشکر کو ضرور روانہ کروں گا، اور آبادی میں میرے سوا کوئی بھی باقی نہ رہے تو بھی میں اس لشکر کو روانہ کر کے رہوں گا ۔ 1 حضرت قاسم اور حضرت عمرہ روایت کر تے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ جب حضور ﷺ کا وصال ہوا تو سارے ہی عرب مرتد ہو گئے اور نفاق سر اٹھا کر دیکھنے لگا ۔ ا للہ کی قسم! میرے والد پر (اس وقت ) ایسی مصیبت پڑی تھی کہ اگر وہ مضبوط پہاڑوں پر پڑتی تو وہ ان کو بھی پاش پاش کر دیتی۔ اور حضورﷺ کے صحابہ کی حالت ایسی ہو گئی تھی جیسے وہ بکری جو رات کے اند ھیرے میں بارش میں بھیگ رہی ہو اور درندوں سے بھرے ہوئے علاقہ میں حیران و پریشان ہو۔ اللہ کی قسم! (اس موقع پر ) جس بات میں بھی صحابہ کا اختلاف ہوتا میرے والد اس کے بگاڑکو ختم کرتے اور اس کی لگام کو تھام کر منا سب فیصلہ کر دیتے (جس سے سارا اختلاف ختم ہو جاتا)۔2 حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیںہے! اگر (حضور ﷺ کے بعد) حضرت ابو بکر ؓ خلیفہ نہ بنائے جاتے تو اللہ کی عبادت (دنیا میں) نہ ہوتی۔ حضرت ابوہریرہ نے دوبارہ یہ بات فرمائی اور پھر تیسری مرتبہ فرمائی تو لوگوں نے ان سے کہا: اے ابوہریرہ! (ایسی بات کہنے سے) آپ رُک جائیں۔ انھوں نے فرمایا: (میں یہ بات اس وجہ سے کہہ رہا ہوں ) کہ حضور ﷺ نے سات سو آ دمیوں کا لشکر دے کر حضرت اُسامہ کو ملکِ شام روانہ فرمایا۔ (مشہور روایت تین ہزار کی ہے، اس لیے بظاہر یہ سات سو کا لشکر قریش میں سے ہوگا) جب حضرت اُسامہ ذِی خُشُب مقام پر (مدینہ سے باہر) پہنچے تو حضور ﷺ کا وصال ہوگیا اور مدینہ کے اَطراف کے عرب مرتد ہوگئے۔ تو حضور ﷺ