حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دوسرے کی کنگھی کر نے لگیں۔ حضرت ابو بکر نے خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! بحمدِ اللہ، آج آپ کو افاقہ ہے۔ آج (میری بیوی) بنتِ خارجہ کا دن ہے مجھے (اس کے ہاں جانے کی) اجازت دے دیں۔ حضور ﷺ نے اُن کو اجازت دے دی۔ چناںچہ وہ (عوالی مدینہ میں) سُنُح محلّہ(میں اپنے گھر ) چلے گئے۔ حضرت اُسامہ سوار ہو کر اپنے لشکر کی قیام گاہ کو چلے اور اپنے ساتھیوں میںاعلان کر دیا کہ سب وہاں پہنچ جائیں۔ لشکر کی قیام گاہ میں پہنچ کر حضرت اُسامہ سواری سے اترے اور لوگوں کو کوچ کا حکم دیا۔ دن چڑھ چکا تھا۔ حضرت اُسامہ سوار ہو کر جُرف سے روانہ ہونا ہی چاہتے تھے کہ ان کے پاس ان کی والدہ حضرت اُمّ اَیمن ؓ کا قاصد پہنچا کہ حضور ﷺ دنیا سے تشریف لے جا رہے ہیں۔ حضرت اُسامہ مدینہ کو چل پڑے۔ اُن کے ساتھ حضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ ؓ بھی تھے۔ جب یہ حضرات حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچے تو حضور ﷺ کے آخری لمحات تھے۔ حضور ﷺ کا انتقال بارہ ربیع الاوّل پیر کے دن زوال کے قریب ہوا۔ جُرف میں جتنے مسلمان (جانے کے لیے تیار ہو کر) ٹھہرے ہوئے تھے وہ سب مدینہ آ گئے۔ حضرت بُریدہ بن حُصَیب نے حضرت اُسامہ کا جھنڈا حضور ﷺ کے دروازے کے قریب زمین میں گاڑ دیا۔ جب حضرت ابو بکر ؓکی بیعت ہو گئی تو انھوں نے حضرت بُریدہ کو حکم دیا کہ وہ جھنڈا حضرت اُسامہ کے گھر لے جائیں، اور جب تک حضرت اُسامہ مسلمانوں کو لے کر غزوہ میں نہ چلے جائیں اس جھنڈے کو نہ کھولیں۔ حضرت بُریدہ فرماتے ہیں کہ میں جھنڈا لے کر حضرت اُسامہ کے گھر گیا، پھر اس جھنڈے کو لے کر ملکِ شام حضرت اُسامہ کے ساتھ گیا۔ پھر میں اسے لے کر (شام سے) حضرت اُسامہ کے گھر واپس آیا اور وہ جھنڈا اسی طرح اُن کے گھر میں یوں ہی بندھا رہا یہاں تک کہ ان کا انتقال ہوگیا۔ جب عربوں کو حضور ﷺ کے انتقال کی خبر ملی اور بہت سے عرب اِسلام سے مرتد ہوگئے تو حضرت ابو بکر نے حضرت اُسامہ سے کہا: تمہیں حضور ﷺ نے جہاں جانے کا حکم دیا تم (اپنا لشکر لے کر) وہاں چلے جائو۔ چناںچہ لوگ پھر (مدینہ سے) نکلنے لگے اور اپنی پہلی جگہ جا کر پڑائو ڈالنے لگے۔ اور حضرت بُریدہ بھی جھنڈا لے کر آئے اور پہلی قیام گاہ پر پہنچ گئے۔ حضرت ابو بکر کا حضرت اُسامہ کے لشکر کو بھیجنا بڑے بڑے مہاجرین اوّلین کو بڑا شاق گزرا۔ چناںچہ حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت ابوعبیدہ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت سعید بن زید ؓ نے حضرت ابو بکر کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: اے خلیفۂ رسول اللہ! ہر طرف عرب کے لوگ آپ کی اِطاعت چھوڑ بیٹھے ہیں، (ان حالات میں ) آپ اس پھیلے ہوئے بڑے لشکر کو بھیج کر اور اپنے سے جدا کرکے کچھ نہیں کر سکیں گے۔ (آپ اس لشکر کو یہاں ہی رکھیں )اور ان سے مرتدین کے فتنہ کو ختم کرنے کا کام لیں، ان کو مرتدین کے مقابلہ کے لیے بھیجیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں