حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی ضرورت نہیں ہے یہاں تک کہ مشکیزوں کی سلائی کے لیے موٹی سوئی کا بھی انتظام کیا۔ چناںچہ یہ بتایا جاتا ہے کہ اس دن حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ اس کے بعد عثمان کچھ بھی کر لیں ان کا کوئی نقصان نہ ہوگا۔ مال داروں نے مال خرچ کرنے کی نیکی میں خوب ذوق وشوق سے حصہ لیا، اور انھوں نے یہ سب کچھ محض ا للہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے شوق میں کیا۔ اور جو حضرات ان مال داروں سے مال میں کم تھے انھوں نے بھی اپنے سے کم تر مال والوں کی خوب مدد کی اور ان کی قوت کا ذریعہ بنے، یہاں تک کہ بعض اپنا اونٹ لاکر ایک دو آدمیوں کو دے دیتے کہ تم دونوں اس پر باری باری سوار ہوتے رہنا۔اور دوسرا آدمی کچھ خرچ لاتا اور اس غزوہ میں جانے والے کو دے دیتا۔ یہاں تک کہ عو رتیں بھی اپنی طاقت اور ہمت کے مطابق ان نکلنے والوں کی مدد کر رہی تھیں۔ چناںچہ حضرت اُمّ سِنان اَسلمیہؓ کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں حضورﷺ کے سامنے ایک کپڑا بچھا ہوا ہے جس پر کنگن، بازو بند، پازیب، بالیاں، انگوٹھیاں اور بہت سے زیور رکھے ہوئے ہیں۔ اور اس غزوہ کی تیاری کے لیے عورتوں نے جانے والوں کی مدد کے لیے جو زیورات بھیجے تھے ان سے وہ کپڑا بھرا ہوا تھا ۔ لوگ ان دنوں سخت تنگی میں تھے اور اس وقت پھل بالکل پک چکے تھے اور سایہ دار جگہیں بڑی مرغوب ہو گئیں تھیں۔ لوگ گھروں میں رہنا چاہتے تھے اور ان حالات کی بنا پر گھرو ں سے جانے پر بالکل راضی نہیں تھے۔ اور حضور ﷺ نے اور زیادہ زور شور سے تیاری شروع فرما دی، اور ثنیّۃ الوداع میں جا کر آپ نے اپنے لشکر کا پڑائو ڈال دیا۔ لوگوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ کسی ایک رجسٹر میں سب کے نام آنہیں سکتے تھے۔ اور جوبھی اس غزوہ سے غا ئب ہونا چاہتا تھا اسے معلوم تھا کہ اس کے غائب ہو نے کا اس وقت تک کسی کو پتہ نہیں چلے گا جب تک کہ اس کے بارے میں اللہ کی طرف سے وحی نازل نہ ہو۔ چنا ںچہ جب حضور ﷺ نے سفر شروع کرنے کا پختہ عزم فرما لیا تو آپ نے مدینہ میں حضرت سِباع بن عُرْفُط ؓ کو اپنا خلیفہ مقرر فرمایا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے حضرت محمد بن مسلمہ ؓ کو خلیفہ بنایا تھا۔ اور حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جوتے زیا دہ مقدار میںساتھ لے کر چلو، کیوںکہ جب تک آدمی جوتی پہنے رہتا ہے وہ گویا کہ سوار ہی رہتا ہے۔ جب حضور ﷺ نے سفر شروع فرما دیا تو ابنِ اُبی (منافق) اور منا فقین کو لے کر پیچھے رہ گیا اور یوں کہنے لگا کہ محمد (ﷺ) بنو اَصفر رومیوں سے لڑنا چاہتے ہیں حالاں کہ مسلمانوں کی بری حالت ہو رہی ہے اور گرمی سخت پڑ رہی ہے اور یہ سفر بہت دور کا ہے اور مقابلہ بھی ایسے لشکر سے ہے جن سے لڑنے کی حضور ﷺ میں طاقت نہیں ہے۔ کیا محمد یہ سمجھتے ہیں کہ بنو اَصفر رومیوں سے لڑنا کھیل ہے؟ اور اس کے منافق ساتھیوں نے بھی اسی طرح کی باتیں کیں، اور حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کے بارے میں پریشان کن خبریں پھیلانے کے لیے اس نے یہ کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو دیکھ رہا ہوں کہ