حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ (مجھے جس کا اندیشہ تھا وہی ہوا) کہ قریش کے ابن العرقہ نامی ایک آدمی نے حضرت سعد کو تیر مارا اور کہا: لے میرا تیر، اور میں ابن العَرِقہ ہوں۔ چناںچہ اس کا ایک تیر رگ ِبازو پر آکر لگا جس سے وہ رگ کٹ گئی۔ حضرت سعد نے اللہ سے دعا کی کہ جب تک میری آنکھیں بنو قریظہ کے(اَنجام کے) بارے میں ٹھنڈی نہ ہوجائیں اس وقت تک مجھے موت نہ دے۔ بنو قریظہ حضرت سعد کے جاہلیت میں دوست اور حلیف تھے۔ چناںچہ (ان کی دعا کی وجہ سے) ان کے زخم سے خون نکلنا بند ہوگیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے مشرکین پر زور دار آندھی بھیجی اور اللہ تعالیٰ کی مدد ایسی آئی کہ مسلمانوں کو لڑنا نہ پڑا اور اللہ تعالیٰ بڑے قوی اور غالب ہیں۔ چناںچہ ابو سفیان اور اس کے ساتھی تہامہ، اور عُیَیْنہ بن بدر اور اس کے ساتھی نجد چلے گئے۔ اور بنو قریظہ واپس آکر اپنے قلعوں میں قلعہ بند ہوگئے، اور حضور ﷺ مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ اور آپ کے حکم دینے پر حضرت سعد کے لیے مسجد میں چمڑے کا خیمہ لگایا گیا۔ پھر حضرت جبرائیل ؑ تشریف لائے اور ان کے دانت غبار آلود تھے۔ انھوں نے حضور ﷺ سے عرض کیا: کیا آپ نے ہتھیار رکھ دیے ؟’’ نہیں‘‘۔ اللہ کی قسم! فرشتوں نے تو ابھی تک ہتھیار نہیں رکھے ہیں۔ آپ بنو قریظہ کی طرف چلیں اور ان سے لڑیں۔ چناںچہ حضور ﷺ نے اپنے ہتھیار پہن لیے اور لوگوں میں کوچ کا اِعلان کروایا کہ چلو۔ بنو غنم مسجد کے پڑوسی تھے اس کے اِردگرد رہتے تھے۔ آپ ان کے پاس سے گزرے تو ان سے پوچھا: ابھی تمہارے پاس سے کون گزر کرگیا ہے؟ انھوں نے کہا: ہمارے پاس سے حضرت دِحیہ کلبی ؓ گزر کرگئے ہیں۔ (حضرت جبرائیل ؑ بعض دفعہ حضرت دِحیہ کی شکل میں آیا کرتے تھے اس لیے) حضرت جبرائیل ؑکی ڈاڑھی اور عمر اور چہرہ سب کچھ حضرت دحیہ کلبی جیسا ہوتا تھا۔ حضور ﷺ نے جاکر بنو قریظہ کا پچیس دن محاصرہ کیا، شدید محاصرہ کی وجہ سے جب بنو قریظہ تنگ آگئے اور اُن کی مصیبت اور پریشانی بہت زیادہ ہوگئی تو ان سے کہا گیا کہ حضور ﷺ کا فیصلہ قبول کرلو۔ انھوں نے ابو لبابہ بن عبد المنذر سے مشورہ کیا۔ ابو لبابہ نے انھیں اشارے سے بتا دیا کہ تم ذبح کردیے جاؤگے ۔ آخر بنو قریظہ نے کہا کہ ہمیں اپنے بارے میں سعد بن معاذ کا فیصلہ منظور ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: چلو اچھا ہے تم سعد بن معاذ کے فیصلہ کو مان لو۔ چناںچہ حضرت سعد بن معاذ ؓ کو ایک گدھے پر سوار کراکر لایا گیا جس پر کھجور کی چھال کا پالان رکھا ہوا تھا۔ (راستہ میں) اُن کی قوم نے ان کو ہر طرح سے گھیرا ہوا تھا اور سب ان سے (بنو قریظہ کی سفارش کرتے ہوئے) کہہ رہے تھے کہ یہ تمہارے حلیف اور دوست ہیں اور مصیبت میں کام آنے والے ہیں اور انھیں تم خود اچھی طرح جانتے ہو۔ حضرت سعد ؓ (سب کی سنتے رہے اور خاموش رہے اور انھوں ) نے اُن کی کسی بات کا کوئی جواب نہ دیا، اور نہ اُن کی طرف متوجہ ہوئے۔ جب بنوقریظہ کے محلہ کے قریب پہنچے تو اپنی قوم کی طرف متوجہ ہوکر ان سے کہا کہ میرے لیے اب اس