حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرو تاکہ یہ سمجھ جائیں۔ اس پر بعض فرشتوں نے کہا کہ یہ تو سورہے ہیں، اور بعض نے کہا کہ ان کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل بیدار رہتا ہے۔ تب فرشتوں نے یہ مطلب بیان کیا کہ وہ گھر جنت ہے اور بلانے والے محمد ﷺ ہیں، لہٰذا جس نے محمدﷺکی اِطاعت کی اس نے اللہ کی اِطاعت کی اور جس نے محمد ﷺ کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور محمدﷺ کی وجہ سے لوگوں کی دو قسمیں ہوگئیں (جس نے آپ کی مانی اس نے اللہ کی مانی اور جنت میں جائے گا ،اور جس نے آپ کی نہ مانی اس نے اللہ کی نہ مانی اور وہ جنت میں نہیں جائے گا)۔ 1 حضرت ابو موسیٰؓ حضورِ اَقدسﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ میری اور اس دین کی مثال جس کو دے کر اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے، اس آدمی جیسی ہے جو اپنی قوم کے پاس آیا اور کہا کہ اے میری قوم! میں نے اپنی آنکھوں سے (دشمن کے بڑے) لشکر کو (تمہاری طرف آتے ہوئے) دیکھا ہے، میں تم کو بے غرض ہو کرڈرا رہا ہوں ،لہٰذا (یہاں سے بھاگنے میں) جلدی کرو جلدی کرو ۔ چناں چہ اس کی قوم میں سے کچھ لوگوں نے اس کی بات مان لی اور سر شام چل دیے اور آرام سے چلتے رہے اور وہ تو بچ گئے، اور اس قوم میں سے کچھ لوگوں نے اسے جھوٹا سمجھا اور وہیں ٹھہرے رہے تو دشمن کے لشکر نے ان پر صبح صبح حملہ کرکے ہلاک کردیا اور ان کو بالکل ختم کردیا۔ یہ مثال ہے ان لوگوں کی جنھوں نے میری بات مانی اور جو دین حق میں لے کر آیا اس پر عمل کیا ، اور ان لوگوں کی جنھوں نے میری نافرمانی کی اور جو دین حق لے کر آیا میں اس کو جھٹلایا۔ 2 حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ حضورِ اَقدسﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ جو کچھ بنی اسرائیل پر آیا وہ سب کچھ میری اُمت پر ضرور آئے گا (اور دونوں میں ایسی مماثلت ہوگی) جیسے کہ دونوں جوتے ایک دوسرے کے برابر کیے جاتے ہیں، یہاںتک کہ اگر بنی اسرائیل میں سے کسی نے اپنی ماں کے ساتھ کھلم کھلا زنا کیا ہوگاتو میری اُمت میں بھی ایسا شخص ہوگا جو اس کام کو کرے گا۔ اور بنی اسرائیل بہتّر فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے میری اُمت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی، اور ایک فرقہ کے علاوہ باقی تمام فرقے جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ ایک فرقہ کون سا ہوگا؟ آپ نے فرمایا: جو اس راستے پر چلے جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں ۔1 حضرت عِرباض بن ساریہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضورِ اَقدس ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی اور پھر اپنے چہرہ ٔاَنور کے ساتھ ہم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ایسا مؤثر وعظ بیان فرمایا کہ جس سے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور دل کانپ گئے۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کا یہ وعظ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ جانے والے کا (آخری) وعظ ہوا کرتا ہے، لہٰذا آپ ہمیں کن خاص باتوں کی تاکید فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا :میں تمہیں اس بات کی وصیت کرتا ہوں