حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے دیکھا کہ ابو رافع کی بیوی اور بہت سے یہودی اس کے اِردگرد جمع ہیں۔ اس کی بیوی کے ہاتھ میں چراغ ہے اور وہ اس کے چہرے کو دیکھ رہی ہے اور وہ اُن کو بتا رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ اللہ کی قسم! آواز تو میں نے ابنِ عتیک کی سنی تھی، لیکن پھر میں نے اپنے آپ کو جھٹلایا اور میں نے کہا: ابنِ عتیک یہاں اس علاقہ میں کہاں؟ پھر اس نے آگے بڑھ کر اس کے چہرے کو غور سے دیکھا اور پھر کہا: یہود کے معبود کی قسم! یہ تو مر چکا ہے۔ میں نے اس سے زیادہ لذیذ بات کبھی نہیں سنی۔ فرماتے ہیں کہ ہمارا ساتھی ہمارے پاس واپس آیا اور اس نے ہمیں (اس کی موت) کی خبر دی۔ ہم اپنے ساتھی کو اُٹھا کر چلے اور حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ کے دشمن کو قتل کردینے کی خبر دی۔ حضور ﷺ کے سامنے ہمارا اختلاف ہوگیا کہ کس نے قتل کیا ہے؟ ہر ایک کہنے لگا کہ اس نے قتل کیا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اپنی تلواریں لاؤ۔ ہم اپنی تلواریں لائے۔ آپ نے انھیں دیکھ کر حضرت عبداللہ بن اُنَیسؓکی تلوار کے بارے میں کہا کہ اس نے قتل کیا ہے، کیوں کہ میں اس میں کھانے کا اثر دیکھ رہا ہوں (یہ تلوار اس کے معدے میں سے گزری ہے)۔1 حضرت براء ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ابو رافع یہودی (کو قتل کرنے کے لیے) چند اَنصار کو بھیجا اور حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ کو اُن کا امیر بنایا۔ ابو رافع رسول اللہ ﷺ کو بہت اَذیت پہنچاتا تھا اور آپ کے مخالفین کی (مالی) اِمداد کیا کرتا تھا، اور وہ سر زمینِ حجاز میں (خیبر میں) اپنے قلعہ میں رہا کرتا تھا۔ یہ حضرات سورج ڈوبنے کے بعد خیبر کے قریب پہنچے۔ لوگ (چراگاہوں سے) اپنے جانور واپس لاچکے تھے۔ حضرت عبداللہ نے (اپنے ساتھیوں سے) کہا کہ تم یہاں بیٹھے رہو میں جاتا ہوں اور دربان سے کوئی ایسی تدبیر کرتا ہوں جس سے میں (قلعہ کے اندر) داخل ہو جاؤں۔ چناںچہ یہ گئے اور دروازے کے قریب جا کر اپنا کپڑا اپنے اوپر ڈال کر اس طرح بیٹھ گئے جیسے کہ یہ قضائے حاجت کے لیے بیٹھے ہوں۔ سب لوگ اندر جا چکے تھے تو ان کو دربان نے آواز دے کر کہا: اے اللہ کے بندے! اگر تمہیں اندر آنا ہے تو آجاؤ میں دروازہ بند کرنا چاہتا ہوں۔ میں اندر داخل ہوکر چھپ گیا۔ جب سب لوگ اندر آگئے تو اس نے دروازہ بند کرکے چابیاں کیل پر لٹکا دیں۔ میں نے کھڑے ہو کر چابیاں لیں اور دروازہ کھول لیا۔ ابو رافع کے پاس رات کو قصے کہانیاں ہوا کرتی تھیں اور وہ اپنے بالاخانے میں تھا۔ جب قصے کہانیاں سنانے والے لوگ اس کے پاس سے چلے گئے تو میں نے بالاخانے پر چڑھنا شروع کیا۔ جب بھی میں کوئی دروازہ کھولتا تو میں اندر سے اسے بند کر لیتا اور میں نے کہا: اگر لوگوں کو میرا پتہ چل بھی گیا تو میں ان کے آنے سے پہلے اسے قتل کر لوں گا۔ جب میں اس کے پاس پہنچا تو وہ اندھیرے کمرے میں اپنے اہل و عیال میں تھا۔ مجھے پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ کمرے میں کس جگہ ہے، اس لیے میں نے اسے آواز دی: ابو رافع! اس نے کہا: یہ کون ہے؟ میں آواز کی طرف بڑھا اور میں نے اس پر تلوار کا ایک وار کیا،