حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تم اس عورت کو علی الاعلان سب کے سامنے لے کر چلے ہو، اورتم جانتے ہی ہوکہ (ان کے والد) محمد (ﷺ) کی وجہ سے ہمیں کتنی مصیبتیںاور تکلیفیںاٹھانی پڑی ہیں۔ جب تم ان کی بیٹی کو علی الاعلان تمام لوگوں کے سامنے ہمارے درمیان میں سے لے کر جاؤ گے تو لوگ یوں سمجھیں گے کہ یہ سب ہماری ذلت اور کمزوری کی وجہ سے ہواہے (کہ ان کی بیٹی سب کے سامنے یوں چلی گئی ہے)۔ اورمیری زندگی کی قسم! ہمیں ان کو ان کے باپ سے روکنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہم ان سے کوئی بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ اس لیے ا ب توتم اس عورت کو واپس لے جاؤ یہاں تک کہ جب یہ شوروشغب ٹھنڈا پڑ جائے گا اور لوگ یوں کہنے لگیںکہ ہم نے ان کی بیٹی کو واپس کروایا ہے تو پھر چپکے سے اسے لے جانا اور اس کے باپ کے پاس پہنچا دینا۔ چناںچہ کنانہ نے ایسا ہی کیا۔ 1 حضرت عروہ بن زُبیرؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کی صاحب زادی حضرت زینب ؓ کو لے کر ایک شخص (مکہ سے)چلا۔ قریش کے دو آدمی پیچھے سے اُن تک جا پہنچے۔ ان دونوں نے اس ایک پر حملہ کیا اوراس پر غالب آگئے۔ چناںچہ حضرت زینب کو اُن دونوں نے دھکا دیا جس سے وہ پتھر پر گر گئیں۔ (وہ امید سے تھیں) اُن کا حمل ساقط ہوگیا اور خون بہنے لگا۔ اور لوگ ان کو ابو سفیان کے پاس لے گئے۔ وہاں بنی ہاشم کی عورتیں (حضرت زینب کی یہ خبر سن کر) آئیں تو ابو سفیان نے ان کو ان عورتوں کے حوالے کیا۔ پھر اس کے کچھ عرصہ کے بعد یہ ہجرت کرکے (مدینہ) آئیں اور یہ مسلسل بیمار رہیں یہاں تک کہ اسی بیماری میں ان کا انتقال ہوگیا۔ سب مسلمان انھیں شہید سمجھتے تھے۔1 نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ جب مکہ سے مدینہ تشریف لے آئے تو آپ کی صاحب زادی حضرت زینب ؓ مکہ سے کنانہ یا ابنِ کنانہ کے ساتھ روانہ ہوئیں۔ مکہ والے ان کی تلاش میںنکل پڑے۔ چناںچہ ہبّار بن اَسود ان تک پہنچ گیا،اور اپنا نیزہ ان کے اونٹ کو مارتا رہا یہاں تک کہ ان کو نیچے گرا دیا جس سے ان کا حمل ساقط ہوگیا۔ انھوں نے صبرو تحمل سے کام لیا اور انھیں اٹھا کر لایا گیا۔ بنو ہاشم اور بنو اُمیّہ کا ان کے بارے میں آپس میں جھگڑا ہوگیا۔ بنواُمیّہ کہتے تھے کہ ہم ان کے زیادہ حق دار ہیں، کیوں کہ وہ ان کے چچا زاد بھائی حضرت ابوالعاص کے نکاح میں تھیں۔ آخر یہ ہندبنتِ عتبہ بن ر بیعہ کے پاس رہتی تھیں اور وہ ان سے کہا کرتی تھی کہ یہ سب تمہارے باپ (یعنی حضور ﷺ) کی وجہ سے ہوا ہے۔ حضور ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ ؓ کو فرمایا: کیا تم (مکہ)جا کر زینب کو لے نہیں آتے؟انھوں نے کہا: ضرور ، یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا: تم میری انگوٹھی لو، یہ ان کو (بطورِ نشانی کے) دے دینا۔ حضرت زید (مدینہ سے) چل دیے اور (حضرت زینب ؓ تک چپکے سے بات پہنچانے کی) مختلف تدبیریں اختیار کرتے رہے۔ چناںچہ اُن کی ایک چرواہے سے ملاقات ہوئی۔ اس سے پوچھا کہ تم کس کے چرواہے ہو؟ اس نے کہا: ابو العاص