حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور میرا وہاں کچھ مال ہے وہ بھی میں لے آتا ہوں۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! تمہیں خوب معلوم ہے میں قریش کے بڑے مال داروں میں سے ہوں، تم ان کے ساتھ مت جاؤ۔ میں تمیں اپنا آدھا مال دیتا ہوں۔ لیکن انھوں نے میری بات نہ مانی اور ان دونوں کے ساتھ جانے پر مُصِر رہے۔ جب انھوں نے ان کے ساتھ جانے کی ٹھان ہی لی تو میں نے ان سے کہا: تم نے جو کرنا تھا وہ کر لیا، (اور ان کے ساتھ جانے کا اِرادہ کر ہی لیا) تو میری یہ اونٹنی لے لو یہ بڑی عمدہ نسل کی اور مان کر چلنے والی ہے۔ تم اس کی پیٹھ پر بیٹھے رہنا، اگر تمہیں ان دونوں کی کسی بات سے شک ہو تو اس پر بھاگ کراپنی جان بچا لینا۔ چناںچہ وہ اس اونٹنی پر سوار ہوکر ان دونوں کے ساتھ چل پڑے۔ راستہ میں ایک جگہ ابوجہل نے ان سے کہا: اے میرے بھائی! اللہ کی قسم! میرایہ اُونٹ سست پڑگیا ہے۔ کیا تم مجھے اپنی اس اونٹنی پر پیچھے نہیںبٹھالیتے؟ حضرت عیّاش نے کہا:ہاں! ضرور۔ اور انھوں نے اپنی اونٹنی نیچے بٹھالی اور ان دونوں نے بھی اپنے اونٹ بٹھالیے تاکہ ابوجہل ان کی اونٹنی پر سوار ہوجائے۔ جیسے ہی وہ زمین پر اترے تو یہ دونوں حضرت عیّاش پر جھپٹے اور انھیں رسی سے اچھی طرح باندھ لیا اور انھیں مکہ لے گئے اور اِسلام سے ہٹانے کے لیے اُن پر بڑا زور ڈالا، آخر وہ اِسلام کو چھوڑ گئے۔ ہم یہ کہا کرتے تھے کہ جو مسلمان اِسلام کوچھوڑ کر کفرمیں چلا جائے گا پھراللہ اس کی توبہ قبول نہیں کریں گے، اور اِسلام چھوڑ کر چلے جانے والے بھی یہی سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ حضور ﷺ مدینہ تشریف لے آئے اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں: {قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاط اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُO وَاَنِیْبُوْا اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْا لَہٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ O وَاتَّبِعُوْا اَحْسَنَ مَا اُنْزِلَ اِلَیْْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ بَغْتَۃً وَّاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ O}1 کہہ دے! اے بندو میرے،جنھوں نے کہ زیادتی کی ہے اپنی جان پر! آس مت توڑو اللہ کی مہربانی سے،بے شک اللہ بخشتا ہے سب گناہ۔ وہ جو ہے وہی ہے گناہ معاف کرنے و الا مہربان۔ اور رجوع ہوجاؤ اپنے ربّ کی طرف۔ اور اس کی حکم برداری کرو پہلے اس سے کہ آئے تم پر عذاب پھر کوئی تمہاری مدد کونہ آئے گا۔ اور چلو بہتر بات پر جو اُتری تمہاری طرف تمہارے ربّ سے، پہلے اس سے کہ پہنچے تم پر عذاب اچانک اور تم کو خبر نہ ہو۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ آیتیں لکھ کر حضرت ہشام بن عاص کے پاس بھیج دیں۔ حضرت ہشام کہتے ہیں کہ جب یہ آیتیں میرے پاس پہنچیں تو میں ان کو ذِی طُویٰ مقام پر پڑھنے لگا اور( ان کے معنیٰ اور مطلب کو سمجھنے کے لیے)ان کو اوپر نیچے دیکھنے لگا، لیکن مجھے ان کا مطلب سمجھ میں نہ آیا، یہاں تک کہ میں نے یہ دعا مانگی: اے اللہ! یہ آیتیں مجھے سمجھا دے۔ پھر اللہ نے میرے دل میں یہ مطلب ڈالا کہ یہ آیتیں ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ ہم جو اپنے