حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رہتا تھا۔ گزرنے والے مجھے مجنون سمجھ کر اپنے پاؤں سے میری گردن دباتے تھے۔ (اس زمانے میں جنون کا علاج گردن کو پاؤں سے دبانے سے کیا جاتا تھا) حالاں کہ یہ جنون کا اثر نہیں تھا بلکہ میں بھوک کی زیادتی کی وجہ سے بے ہو ش ہوجاتا تھا ۔ 2 ابنِ سعدکی روایت میں مزید یہ مضمون بھی ہے کہ میں نے اپنے آپ کو اس حال میں دیکھا ہے کہ میں عفان کے بیٹے اورغزوان کی بیٹی کے ہاںمزدور ی پر کام کرتا تھا، اور میری مزدوری یہ تھی کہ مجھے کھانا ملے گا اور (سفر میں) اپنی باری پر سوار ہونے کا موقع ملے گا۔ جب وہ لوگ سوار ہوجاتے تو میں سواری کو پیچھے سے ہانکتا اور جب وہ کہیں ٹھہرتے تو میں اُن کی خدمت کرتا ۔ ایک دن غزوان کی بیٹی نے مجھ سے کہا: تم ننگے پاؤں سواری کے پاس آیا کرو اور کھڑے کھڑے اس پرسوار ہوا کرو (یعنی ہم تمہاری وجہ سے دیر نہیں کرسکتے، نہ اس کا انتظار کرسکتے ہیں کہ تم پاس آکر جوتی اتارو اور پھر سوار ہو، اور نہ تمہیں سوار کرنے کے لیے سواری کو بٹھاسکتے ہیں)۔ اور اب اللہ تعالیٰ نے غزوان کی بیٹی سے میری شادی کرادی ہے، تو میں نے بھی اس کو (از راہِ مذاق اس کی بات کو یاد کراتے ہوئے )کہا: تو ننگے پاؤںسواری کے پاس آیا کر اور کھڑے کھڑے اس پر سوار ہوا کر۔ اور اس سے پہلے ابنِ سعد نے سلیم بن حیّان سے یہ روایت کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا وہ فرمارہے تھے کہ میں نے حضرت ابوہریرہ ؓکو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے یتیمی کی حالت میں پرورش پائی اور مسکینی کی حالت میں ہجرت کی اور میں بُسرہ بنتِ غزوان کے ہاں مزدوری پر کام کرتا تھا جس کے بدلہ میں مجھے کھانا اور باری پر سواری پر سوار ہونا ملتا تھا۔ وہ لوگ جب کہیں اترتے تو میں اُن کی خدمت کرتا اور جب وہ سوار ہوجاتے تو حُدِی (اونٹوں کو چلانے کے لیے ایک خاص آواز) پڑھتا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بُسرہ سے ہی میری شادی کرادی۔ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے دین کو تمام کاموں کے ٹھیک ہونے کا ذریعہ بنایا اور ابوہریرہ کو اِمام بنایا۔ حضرت عبداللہ بن شقیق فرماتے ہیں: میں حضرت ابوہریرہ ؓ کے ساتھ مدینہ میں ایک سال رہا۔ ایک دن ہم لوگ حضرت عائشہ ؓ کے حجرہ شریف کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ نے مجھ سے کہا کہ ہم لوگوں نے اپنے آپ کو اس حال میں دیکھا ہے کہ ہمارے کپڑے صرف کھردری اورموٹی چادریں ہوا کرتے تھے، اور کئی کئی دن گذر جاتے تھے اور ہمیں اتنا بھی کھانا نہیں ملتا تھا کہ جس سے ہم اپنی کمر سیدھی کرسکیں۔ اور ہمارا پیٹ اندر کو پِچکا ہوا ہوتا تھا، اس پر پتھر رکھ کر ہم اسے کپڑے سے باندھ لیا کرتے تھے تاکہ ہماری کمرسیدھی رہے۔1 اِمام احمد حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں ہمارا کھانا صرف کھجور اور پانی تھا۔ اللہ کی قسم! ہمیں تمہاری یہ گندم نظر بھی نہیں آتی تھی، اور ہمیں پتہ بھی نہیں تھا کہ یہ گندم کیا چیز ہوتی ہے؟