حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے آدھے گوشت کا سالن بنایا اور آدھے کو بھون لیا۔ جب کھانا تیار ہوگیا اور نبی کریم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کے سامنے رکھاگیاتوآپ نے تھوڑا سا گوشت روٹی پر رکھ کر حضرت ابو ایوب سے کہا: اسے حضرت فاطمہ (ؓ) کے پاس پہنچادو،کیوں کہ بہت دنوں سے انھیںایسا کھانا نہیں ملا۔ حضرت ابو ایوب وہ لے کر حضرت فاطمہ کے پاس گئے۔ جب یہ حضرات کھا چکے اور سیر ہوگئے تو حضور ﷺ نے فرمایا:روٹی اور گوشت اور خشک کھجور اور تر کھجور اور گدّر کھجور۔ اور یہ کہہ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور پھر یہ فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! یہی وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں تم سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔ یہ بات آپ کے صحابہ کو بڑی بھاری معلوم ہوئی، تو آپ نے فرمایا: لیکن جب تمہیں ایسا کھانا ملے اور تم اس کی طرف ہاتھ بڑھانے لگو تو بِسْمِ اللّٰہِ پڑھا کرو، اور جب تم سیر ہوجاؤ تو یہ دعا پڑھو: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ ھُوَ أَشْبَعَنَا وَأَنْعَمَ عَلَیْنَا فَأَفْضَلَ۔ تمام تعریفیںاس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں سیر کیا اور ہم پر اِنعام فرمایا اور ہمیں خوب دیا۔ تو یہ دعا اس کھانے کا بدلہ ہوجائے گی (اور اب اس کھانے کے بارے میں قیامت کے دن سوال نہیں کیا جائے گا)۔ جب آپ وہاں سے اُٹھے تو حضرت ابو ایوب کو فرمایا کہ کل ہمارے پاس آنا۔آپ کی عادتِ شریفہ یہ تھی کہ جو بھی آپ کے ساتھ بھلائی کرتا آپ اسے اس کا بدلہ دینا پسند فرماتے۔ حضرت ابو ایوب ؓ نے حضور ﷺ کی یہ بات نہ سنی تو حضرت عمر ؓ نے اُن سے کہا کہ حضور ﷺ تمہیں کل اپنے پاس آنے کاحکم دے رہے ہیں۔چناںچہ وہ اگلے دن حضور ﷺ کی خدمت میںآئے۔حضور ﷺ نے اُن کو اپنی باندی دے دی اور فرمایا: اے ابو ایوب! اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، کیوں کہ یہ جب تک ہمارے پاس رہی ہے ہم نے اس میں خیر ہی دیکھی ہے۔ حضرت ابو ایوب ؓ جب اس باندی کو حضور ﷺ کے ہاں سے لے آئے توفرمایا کہ حضور ﷺ کی اس وصیت کی سب سے بہتر صورت یہ ہے کہ میں اسے آزادکردوں۔ چناںچہ اسے آزادکر دیا۔1 حضرت ابنِ عباس ؓ نے حضرت عمربن خطاب ؓکو فرماتے ہوئے سناکہ ایک دن حضورﷺ دوپہرکے وقت گھرسے باہر تشریف لائے توحضرت ابو بکر ؓکو آپ نے مسجد میں پایا۔ تو آپ نے فرمایا: تم اس وقت گھرسے باہر کیوں آئے؟ انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جس وجہ سے آپ آئے ہیں۔ پھر حضرت عمر بن خطاب ؓ آگئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اے ابنِ خطاب! تم گھرسے باہرکیوںآئے؟ انھوں نے عرض کیا: جس وجہ سے آپ دونوں آئے ہیں۔ پھرحضرت عمر بھی بیٹھ گئے اور حضور ﷺ ان دونوں حضرات سے بات کرنے لگ گئے۔ پھر آپ نے فرمایا: کیا تم دونوں میں اتنی ہمت ہے کہ کھجوروںکے اس باغ تک چلے چلو؟ وہاں تمہیں کھانا اور پانی اور سایہ مل جائے گا۔ پھرآپ نے فرمایا: آؤ ابوالہیثم بن تَیِّہان