حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جنون اور بے قراری اور اُس دور کی خصوصیات کا ایک اندازہ کرنے کے لیے اس زمانہ میں ظاہر کیا گیا ہے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ حضرت مولانا محمد الیاس حضرات صحابۂ کرام کے واقعات پڑھوا کر سنا کرتے اور ان سے کیف وسرور کی کسی دوسری دنیا میں مسْتَغْرق ہو جاتے۔ انھوں نے اپنے فخر زمانہ بھتیجے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب ؒ سے اردو میں ایک کتاب ’’حکایاتِ صحابہ‘‘ لکھوائی جو حضرات صحابہ کی مبارک زندگی کے مختلف پہلوؤں پر مختلف عنوانات کے تحت ترتیب دی گئی ہے اور جس کی عند اللہ مقبولیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ اس کے تراجم انگریزی، فرانسیسی، جاپانی اور دنیا کی دیگر زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ حضرت مولانا محمد یوسف صاحب ؒ کو بھی سیرت نبوی اور حالاتِ صحابہ سے عشق وشغف ورثہ میں ملا۔ بچپن ہی سے وہ حضرات صحابۂ کرام کے حالات وواقعات کا مطالعہ کیا کرتے۔ چناںچہ بچپن میں ’’صمْصَامُ الاسلام‘‘ اور ’’محارباتِ صحابہ‘‘ کے پڑھنے اور سنانے سے بہت زیادہ دلچسپی تھی۔ حضرت مولانا محمد الیاس کی حیات میں عشاء کی نماز کے بعد سیرت کی کتابوں کے سنانے کی عظیم خدمت پر مولانا محمد یوسف صاحب ہی مامور تھے۔ حضرت کے وصال کے بعد بھی تاحیات آپ کا یہ معمول جاری رہا۔ چناںچہ بارہا اس کا مشاہدہ ہوا کہ جس وقت حضرت مولانا محمد یوسف صاحب ’’حیاۃ الصحابہ‘‘ پڑھتے اور ان مبارک واقعات کی تشریح فرماتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ گویا صحابۂ کرام کو اپنی آنکھوں سے دیکھاہے یا حضرت ان کے گھر کے مخصوص لوگوں میں سے ہیں اور یہ سب واقعات حضرت کے سامنے گزرے ہیں۔ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب ؒ چاہتے تھے کہ حضرات صحابہ کی سیرت کو دعوت کے طرزپر پیش کیا جائے۔ چناںچہ اس کام کے لیے انھوں نے اپنے لائق فرزند حضرت مولانا محمد یوسف صاحب نَوَّر اللّٰہُ مَرْقَدَہٗ ہی کا انتخاب کیا اور ’’أماني الأحبار‘‘ کا کام درمیان میں رکوا کر اس کتاب کو ترتیب دلانا شروع کردیا اور بالآخر اس کانام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی دامت برکاتہم کی تجویز پر ’’حیاۃ الصحابہ‘‘ رکھا گیا۔ اہل علم کی رائے ہے کہ سیرت ِصحابہ پر آج تک ایسی جامع اور مانع کتاب مِنَصَّہ شہود پر نہیں آئی۔ گزشتہ چند سالوں سے مخدوم گرامی حضرت مولانا محمد عمر صاحب پالن پوری مدظلہم بندہ سے تقاضا فرمارہے تھے کہ اس مبارک کتاب کا اردو میں ترجمہ کر ڈالو۔ مگر یہ نا کارہ اپنی کم مائیگی، بے بضاعتی، نا تجربہ کاری، تصنیف وتالیف سے عدم مناسبت۔ نیز رائے ونڈ کی مسجد ومدرسہ کی دعوتی وتدریسی مصروفیات کی وجہ سے اس خدمت کی ہمت نہ کر سکا۔ لیکن رائے ونڈ کے سالانہ اجتماع نومبر ۱۹۹۰ء کے بعد دہلی واپسی کے موقع پر لاہور ہوائی اڈہ پر حضرت جی1 دامت برکاتہم العالیہ نے محترم الحاج محمد عبد الوہاب صاحب سے صراحتاً حکم فرمایا کہ احسان ’’حیاۃ الصحابہ‘‘ کا اردو ترجمہ کرے۔ چناںچہ