حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وقت پر پڑھو، فرض زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو، بیت اللہ کا حج کرواور اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ میںنے کہا: یا رسول اللہ! باقی تو تمام کام کروں گا لیکن دو کام نہیں کر سکتا ہوں: ایک زکوٰۃ کیوں کہ میرے پاس دس اونٹ ہیں ان کے دودھ پر ہی میرے گھر والوں کا گزارا ہوتا ہے اور وہی ان کے بار برداری کے کام آتے ہیں،اور دوسرے جہاد کیوں کہ میں بز دل آدمی ہوں اور لوگ یوں کہتے ہیں کہ جو (میدانِ جنگ سے ) پشت پھیرے گا وہ اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹے گا۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر دشمن سے لڑنا پڑگیا اور میں گھبرا کر (میدانِ جنگ سے) بھاگ گیا تو میں اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹوں گا۔ حضور ﷺ نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور ہاتھ ہلاتے ہوئے فرمایا: اے بشیر! جب تم نہ زکوٰۃ دوگے اور نہ جہاد کروگے تو کس عمل کے ذریعہ جنت میں داخل ہوگے؟ میں نے کہا:یا رسول اللہ! آپ اپنا ہاتھ بڑھائیں میں آپ سے بیعت ہوتا ہوں۔ چناںچہ آپ نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور میں ان تمام اعمال پر حضور ﷺ سے بیعت ہوگیا۔1 حضرت جریر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نماز قائم کرنے، زکوٰۃدینے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر حضورﷺسے بیعت ہوا ۔ 2 اِمام احمد نے ہی اسی روایت کو اس طرح بھی نقل کیاہے کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ (بیعت ہونے کے لیے ) مجھے بتائیں کہ بیعت ہونے کے بعد کون سے اعمال کرنے پڑیں گے؟ کیوں کہ جن اعمال کی پابندی کرنی ہوگی اُن کو آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں تمہیں اس بات پر بیعت کرتا ہوں کہ تم اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ کی عبادت کروگے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے، نماز قائم کروگے اور زکوٰۃ دوگے اورمسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرو گے اور شرک سے بالکل بچ کر رہو گے۔1 ابنِ جریر نے بھی ایسی ہی روایت نقل کی ہے لیکن اس میں یہ ہے کہ تمام مسلمانوں سے خیر خواہی کا معاملہ کروگے اور شرک کو چھوڑ دوگے ۔ 2 طبرانی کی روایت میں ہے کہ حضرت جریر ؓحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور ﷺ نے فرمایا: اے جریر! اپنا ہاتھ(بیعت ہونے کے لیے) بڑھائو۔ حضرت جریرنے کہا:کن اعمال پر ؟ حضور ﷺ نے فرمایا: اس پر کہ تم اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جھکا دو گے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرو گے۔ (یہ سن کر ) حضرت جریر (بیعت کے لیے) راضی ہوگئے۔حضرت جریر انتہائی سمجھ دار آدمی تھے اس لیے انھوں نے کہا: یا رسول اللہ! میں ان اعمال کی اتنی پابندی کروں گاجتنی میرے بس میں ہے، چناںچہ اس کے بعد تمام لوگوں کو یہ رعایت مل گئی۔3 حضرت عوف بن مالک اشجعی ؓ فرماتے ہیں کہ ہم سات یا آٹھ یا نو آدمی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ نے