حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رُستم نے پوچھا: وہ دین کیا ہے؟ حضرت مغیرہ نے کہا: اس دین کا وہ ستون جس کے بغیر اس کی کوئی چیز درست نہیں ہوسکتی وہ کلمۂ شہادت أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھ لینا ہے۔ اور جو کچھ حضور ﷺ اللہ کے پاس سے لائے ہیں اس کا اِقرار کرلینا ہے۔ رُستم نے کہا: یہ تو کتنی اچھی بات ہے۔ اس کے علاوہ اور کیا ہے؟ حضرت مغیرہ نے کہا: اللہ کے بندوں کو بندوں کی عبادت سے نکال کر اللہ کی عبادت میں لگادینا ۔ رُستم نے کہا: یہ بھی اچھی بات ہے۔ اس کے علاوہ اور کیا ہے؟ حضرت مغیرہ نے کہا: تمام انسان حضرت آدم ؑ کی اولادہیں، لہٰذا وہ ماں باپ شریک بھائی ہیں۔ رُستم نے کہاکہ یہ بھی اچھی بات ہے۔ اچھا! ذرا یہ تو بتاؤ اگر ہم تمہارے دین میں داخل ہوجائیں تو کیا تم ہمارے ملک سے واپس چلے جاؤ گے؟ حضرت مغیرہ نے کہا: ہاں، اللہ کی قسم! پھر تمہارے ملک میں صرف تجارت یا کسی اور ضرورت کی وجہ سے آئیں گے۔ رُستم نے کہا: یہ بھی اچھی بات ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ جب حضرت مغیرہ ؓ رُستم کے پاس سے واپس چلے گئے تو رُستم نے اپنی قوم کے سرداروں سے اِسلام کا تذکرہ کیا، لیکن ان سرداروں نے پسند نہ کیا اور اِسلام میں داخل ہونے سے اِنکار کر دیا۔ اللہ ہی اُن کو خیر سے دورکرے اور رسوا کرے اور اللہ نے ایسا کردیا۔ راوی کہتے ہیں کہ رُستم کے مطالبہ پر حضرت سعد ؓ نے ایک اور قاصد حضرت رِبعی بن عامرؓ کو رُستم کے پاس بھیجا۔ یہ رُستم کے ہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں نے رستم کے دربار کو سونے کے کام والے تکیوں اور ریشمی قالینوں اور چمک دار یا قوتوں اور قیمتی موتیوں سے اور بڑی زیب و زینت سے سجا رکھا تھا۔ اور خود رستم تاج اور قیمتی سامان پہنے ہوئے تھا اور سونے کے تخت پر بیٹھا ہوا تھا۔ حضرت رِبعی موٹے جھوٹے کپڑے پہنے ہوئے تھے، تلوار اور ڈھال لگا رکھی تھی، چھوٹے قد والی گھوڑی پر سوار تھے اور برابر اس پر سوار رہے یہاں تک کہ قالین کا ایک کنارہ گھوڑی نے روند ڈالا۔ پھر اس سے اتر کر انھوں نے گھوڑی کو ایک تکیہ سے باندھ دیا اور آگے بڑھے تو وہ ہتھیار اور زرہ پہنے ہوئے تھے اور خَود اُن کے سر پر رکھی ہوئی تھی تو ان سے دربانوں نے کہاکہ آپ اپنے ہتھیار یہاں اُتار دیں۔ حضرت رِبعی ؓ نے کہا: میں خود سے تمہارے پاس نہیںآیا ہوںبلکہ تم لوگوں کے بلانے پر آیا ہوں۔ اگر تم مجھے ایسے ہی آگے جانے دیتے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ میںیہیں سے واپس چلا جاتا ہوں۔ (دربانوں نے رُستم سے پوچھا) رستم نے کہا: ان کو ایسے ہی آنے دو۔ یہ رستم کی طرف اپنے نیزے سے قالینوں پر ٹیک لگاتے ہوئے آگے بڑھے اور یوں اکثر قالین پھاڑ ڈالے۔ حاضرینِ دربار نے حضرت رِبعی ؓ سے پوچھا: آپ لوگ یہاں کس لیے آئے ہو؟ انھوںنے کہا: اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس لیے مبعوث فرمایاہے کہ جسے اللہ چاہے اسے ہم بندوں کی عبادت سے نکال کر اللہ کی عبادت میں لگادیں اور دنیا کی تنگی سے