حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
بات سنوں گا اور نہ ہی اُن سے کوئی بات کروں گا، یہاں تک کہ صبح کو جب میں مسجد کو جانے لگا تو کانوں میں روئی اس ڈر سے بھرلی کہ کہیں بلا اِرادہ آپ کی کوئی بات میرے کان میں نہ پڑ جائے۔ چناں چہ میں مسجد گیا تو حضور ﷺ کعبہ کے پاس کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ میں آپ کے قریب کھڑا ہوگیا۔ اس ساری احتیاط کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مجھے حضور ﷺ کے بعض الفاظ سنا ہی دیے۔ مجھے وہ بہت اچھا کلام محسوس ہوا تو میں نے اپنے دل میں کہا: میری ماں مجھے روئے! میں ایک سمجھ دار اور شاعر آدمی ہوں، اچھے اور برے کلام میں تمیز کرلیتا ہوں، اس میں کیا حرج ہے کہ میں ان کی بات سنوں؟ اگر اچھی ہوئی تو قبول کرلوں گا اور اگر بری ہوئی تو چھوڑ دوں گا۔ پھر میں وہاں انتظار میں بیٹھا رہا ،یہاں تک کہ حضور ﷺ نماز سے فارغ ہوکر گھر کو تشریف لے چلے تومیں بھی آپ کے پیچھے چل پڑا، یہاں تک کہ جب آپ اپنے گھر میں داخل ہوگئے تو میں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا: اے محمد! آپ کی قوم نے مجھ سے ایسے ایسے کہا اور اللہ کی قسم! مجھے آپ سے اتنا ڈراتے رہے کہ میں نے اپنے کانوں میں روئی اچھی طرح سے بھرلی تاکہ آپ کی بات نہ سن سکوں، لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کی بات سنا ہی دی۔ مجھے بہت اچھا کلام محسوس ہوا۔ آپ اپنی بات میرے سامنے پیش کریں ۔ چناںچہ حضور ﷺ نے میرے سامنے اِسلام کو پیش کیا اور مجھے قرآن پڑھ کر سنایا۔ فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! میں نے اس سے پہلے اس سے زیادہ عمدہ اور اس سے زیادہ اِنصاف والی بات نہیں سنی تھی۔ چناںچہ میں کلمۂ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوگیااور میں نے عرض کیا: یا نبی اللہ! میری قوم میں میری چلتی ہے۔ میں ان کے پاس واپس جاکر انھیں اِسلام کی دعوت دوں گا۔ آپ اللہ سے میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایسی کوئی نشانی دے جس سے مجھے انھیں دعوت دینے میں مدد ملے۔ آپ نے یہ دعا فرمائی: اے اللہ! اس کو کوئی نشانی عطا فرما۔ چناں چہ میں اپنی قوم کی طرف چل پڑا۔ جب میں اس گھاٹی پر پہنچا جہاں سے میں اپنی آبادی والوں کو نظر آنے لگا تو میری دونوں آنکھوں کے درمیان چراغ کے مانند ایک چمکتا ہوا نور ظاہر ہوا۔ میں نے دعا مانگی: اے اللہ! اس نور کو میرے چہرے کے علاوہ کسی اور جگہ ظاہر کردے، کیوں کہ مجھے خطرہ ہے کہ میری قوم والے (آنکھوں کے درمیان نور دیکھ کر) یہ سمجھیں گے کہ ان کے دین کو چھوڑ نے کی وجہ سے میرا چہرہ بدل گیا ہے۔ چناںچہ وہ نور بدل کر میرے کوڑے کے سِرے پر آگیا۔ جب میں گھاٹی سے آبادی کی طرف اُتر رہا تھا تو آبادی والوں کو میرے کوڑے کا یہ نور لٹکے ہوئے قندیل کی طرح نظر آرہا تھا جسے وہ ایک دوسرے کو دکھارہے تھے، یہاں تک کہ میں اُن کے پاس پہنچ گیا۔ جب میں سواری سے اترا تو میرے والدآئے جو کہ بہت بوڑھے ہوچکے تھے۔ میںنے اُن سے کہا: اے اباجان! مجھ سے دور رہیں۔ آپ کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ میرا آپ سے۔ انھوں نے کہا: اے میرے بیٹے!کیوں؟ میں نے کہا: کیوں کہ میں مسلمان ہوچکا ہوں اور محمد ﷺ کا دین اختیار کرچکا