حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مہینہ کے روزے رکھو۔ جو مان لے گا اسے جنت ملے گی جو نافرمانی کرے گا وہ دوزخ کی آگ میںجائے گا۔ اے قبیلہ جُہَیْنہ! اللہ تعالیٰ نے تمہیں عربوں میں سے بہترین قبیلہ بنایا ہے، اور جو بری باتیں عرب کے دوسرے قبیلوں کو اچھی لگتی تھیں اللہ تعالیٰ نے زمانۂ جاہلیت میں بھی تمہارے دلوں میں اُن کی نفرت ڈالی ہوئی تھی، کیوں کہ وہ دوسرے قبیلے دو بہنوں سے اکٹھی شادی کرلیتے تھے، اور شہر حرام میں جنگ کرلیتے تھے، اور اپنے باپ کی بیوی سے بعد میں نکاح کرلیتے تھے۔ بنی لُؤی بن غالب! اللہ کے بھیجے ہوئے اس نبی کی بات مان لو، دنیا کی شرافت اور آخرت کی بزرگی ملے گی۔ حضرت عمرو فرماتے ہیں: میری قوم میں سے کوئی میرے پاس نہ آیا، صرف ایک آدمی نے آکر یہ کہا: اے عمرو بن مرّہ! اللہ تیری زندگی کو تلخ کرے، کیا تم ہمیں اس بات کا حکم دیتے ہو کہ ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں، اور ہم اپنا شیرازہ بکھیردیں، اور ہم اپنے ان آباء واَجداد کے دین کی مخالفت کریںجو عمدہ اور بلند اخلاق والے تھے؟ یہ تہامہ کا رہنے والا قریشی ( ؑ) ہمیں کس چیز کی دعوت دیتا ہے؟ نہ ہمیں اس سے محبت ہے اور نہ ہم اس کی بزرگی کو تسلیم کرتے ہیں۔ پھر وہ خبیث یہ شعر (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) پڑھنے لگا : إِنَّ ابْنَ مُرَّۃَ قَدْ أَتٰی بِمَقَالَۃٍ لَیْسَتْ مَقَالَۃَ مَنْ یُّرِیْدُ صَلَاحًا ابنِ مرّہ ایسی بات لے کر آیا ہے جو اس آدمی کی بات نہیں ہوسکتی ہے جو چاہتا ہے کہ حالات درست ہوجائیں ۔ إِنِّيْ لَأَحْسَبُ قَوْلَہٗ وَفَعَالَہٗ یَوْمًا وَإِنْ طَالَ الزَّمَانُ ذُبَاحًا میں یہ سمجھتا ہوں کہ ابنِ مرّہ کا قول و فعل ایک نہ ایک دن ضرور گلے کا چھچھوندر بن کر رہے گاچاہے اس میں کچھ دیر لگے ۔ لَیُسَفِّہُ الْأَشْیَاخَ مِمَّنْ قَدْ مَضٰی مَنْ رَامَ ذٰلِکَ لَا أَصَابَ فَلَاحًا وہ ہمارے گزرے ہوئے اَسلاف کو بے وقوف ثابت کرتا ہے، جو ایسا کرنا چاہتا ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔ حضرت عمرو بن مرّہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہو خدا اس کی زندگی کو تلخ کردے، اور اس کی زبان کو گونگا اور آنکھوں کو اندھا کردے۔ راوی کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! مرنے سے پہلے ہی اس آدمی کے سارے دانت گرچکے تھے اور وہ اندھا ہوچکا تھا اور اس کی عقل خراب ہوچکی تھی اور اسے کسی کھانے میں ذائقہ محسوس نہیں ہوتا تھا۔ چناںچہ حضرت عمرو اپنی قوم کے مسلمانوں کو لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور ﷺ نے اُن کا بڑا استقبال کیا اور ان کو درازیٔ عمر کی دعا دی اور اُن کو ایک خط لکھ کر دیا جس کا مضمون یہ ہے: