حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
انھوں نے بھی کھڑے ہوکر ان دونوں کو گالیاں دینی شروع کیں اور پھر حضرت اَسعد بن زُرارہ کو کہا: اللہ کی قسم! اے ابواُمامہ! اگر میرے اور تمہارے درمیان رشتہ داری نہ ہوتی تو تم اس طرح کرنے کو سوچ بھی نہ سکتے۔ تم ہمارے محلے میں وہ چیز لانا چاہتے ہو جسے ہم برا سمجھتے ہیں۔ ان کو آتا ہوا دیکھ کر حضرت اَسعد نے حضرت مُصْعَب سے کہہ دیا تھا کہ آپ کے پاس ایسا بڑا سردار آرہا ہے جس کے پیچھے ایسی ماننے والی قوم ہے کہ اگر انھوں نے آپ کا کہا مان لیا تو ان کی قوم میں دو آدمی بھی کہا ماننے سے پیچھے نہیں رہیں گے۔ حضرت مُصْعَب نے حضرت سعد بن معاذ سے کہا: ذرا بیٹھ جاؤ، کچھ ہماری بھی سن لو۔ اگر ہماری بات پسند آجائے اور دل چاہے تو مان لینا اور اگر پسند نہ آئے تو ہم آپ کی ناپسندیدہ بات کو چھوڑ دیں گے۔ حضرت سعد نے کہا: آپ نے اِنصاف کی بات کہی ہے۔ پھر نیزہ گاڑ کر بیٹھ گئے۔ حضرت مُصْعَب نے ان پر اِسلام پیش کیا اور انھیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ موسی بن عقبہ کا بیان ہے کہ انھوں نے سورتِ زُخرف کی شروع کی آیتیں سنائی تھیں۔ یہ دونوں حضرات بیان فرماتے ہیں کہ ان کے بولنے سے پہلے ہی قرآن سنتے ہی ان کے چہرے کی چمک اور نرمی سے ہمیں یہ محسوس ہوگیا کہ یہ اِسلام قبول کرلیں گے۔ چناںچہ انھوں نے ان دونوں حضرات سے پوچھا کہ جب تم مسلمان ہوکر اس دین میں داخل ہوا کرتے ہو تو کیاکیا کرتے ہو؟ انھوں نے کہا: غسل کرکے پاک ہوجاؤ اور اپنے دونوں کپڑوں کو پاک کرلو اور پھر کلمۂ شہادت پڑھو ، پھر دو رکعت نماز پڑھو۔ چناں چہ انھوں نے کھڑے ہوکر غسل کیا اور اپنے کپڑوں کو پاک کیا اور کلمۂ شہادت پڑھا، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر اپنانیزہ لے کر اپنی قوم کی مجلس کی طرف واپس گئے اور اُن کے ساتھ حضرت اُسید بن حضیر بھی تھے۔ جب اُن کو اُن کی قوم نے آتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے کہا: ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیںکہ واپسی میں حضرت سعد کا چہرہ بدلا ہوا ہے (اب اس پر اِسلام کا نور چمک رہا ہے)۔ انھوںنے اپنی قوم کے پاس کھڑے ہوکر کہا: اے بنو عبدالاشہل! تم مجھے اپنے میں کیسا سمجھتے ہو؟ انھوں نے کہا: آپ ہمارے سردار ہیں۔ ہم میں سب سے اچھی رائے والے اور سب سے عمدہ طبیعت کے ما لک ہیں۔ انھوں نے کہا: تمہارے مردوں اورعورتوں سے بات کرنا مجھ پر حرام ہے جب تک تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لے آؤ۔ راوی کہتے ہیں کہ شام تک بنو عبدالاشہل کے تمام مرد وعورت مسلمان ہوچکے تھے۔ اور حضرت سعدؓ اور حضرت مُصْعبؓ دونوں حضرت اَسعد بن زُرارہؓ کے گھر آگئے اوران کے ہاں ٹھہر کر دونوں اِسلام کی دعوت دیتے رہے یہاں تک کہ اَنصار کے ہر محلہ میں کچھ نہ کچھ مرد اور عورت ضرور مسلمان ہوگئے، لیکن بنو اُمیّہ بن زید، خطمہ ، وائل اور واقف کے محلوں میں کوئی مسلمان نہ ہوا۔ یہ اَوس قبیلہ کے مختلف خاندان ہیں۔1 طبرانی نے اور’’ دلائل النبوۃ‘‘ میں ابو نُعیم نے حضرت عروہ سے ایک لمبی روایت ذکر کی ہے، جس میں یہ مضمون بھی ہے