حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تاکہ ان کے دل پر زیادہ اثر پڑے ۔ انھوں نے اِسلام لانے کے لیے حضور ﷺ کے سامنے یہ شرطیں پیش کیں کہ جہاد میں جانے کے لیے ان کو کہیں جمع نہیں کیا جائے گا، اور اُن کی پیداوار کا عُشر نہیں لیا جائے گا، اور وہ نماز نہیں پڑھیں گے، اور اُن کا امیر کسی اور قبیلہ سے نہیں بنایا جائے گا۔ حضورﷺ نے فرمایا: (تین شرطیں تو منظور ہیں کہ ) تمہیں جہاد میں جانے کے لیے نہیں کہا جائے گا اور تم سے پیداوار کا عُشر نہیں لیا جائے گا، دوسرے قبیلہ کا آدمی تم پر امیر نہیں بنایا جائے گا (البتہ نماز پڑھنی پڑے گی، کیوں کہ) اس دین میں کوئی خیر نہیں ہے جس میں رکوع نہ ہو۔ حضرت عثمان بن ابی العاص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے قرآن سکھادیں اور مجھے میری قوم کا امام بنادیں ۔1 حضرت وہب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر ؓ سے بنو ثقیف کی بیعت کے قصے کو پوچھا، انھوں نے کہا کہ بنو ثقیف نے حضورﷺ کے سامنے یہ شرطیں پیش کیں کہ نہ وہ صدقہ (زکوٰۃ) دیں گے اور نہ وہ جہاد کریں گے۔ (حضورﷺ نے ان شرطوں کو مان لیا) اور حضرت جابر ؓ نے حضورﷺ کو بعد میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب یہ لوگ مسلمان ہوجائیں گے تو خود ہی یہ صدقہ (زکوٰۃ ) دینے لگ جائیں گے اور جہاد کرنے لگ جائیں گے۔1 حضرت اَوس بن حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ ہم ثقیف کے وفد میں شریک ہوکر حضور ﷺ کی خدمت میں آئے۔ بنی اَحلاف کے لوگ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کے پاس ٹھہرے اور بنی مالک کو حضور ﷺ نے اپنے خیمہ میں ٹھہرایا ۔ آپ روزانہ عشاء کے بعد ہمارے پاس تشریف لاتے اور کھڑے کھڑے ہم سے باتیں کرتے اور اتنی دیر کھڑے رہتے کہ آپ تھک جاتے اور باری باری سے دونوں پاؤں پر آرا م لیتے۔ زیادہ تر آپ اُن تکلیفوں کا تذکرہ کرتے جو آپ کو اپنی قوم قریش کی طرف سے پیش آئی تھیں، اور اس کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ مجھے ان تکلیفوں کا کوئی غم نہیں ہے کیوں کہ اس وقت ہمیں مکہ میں کمزور اور بے سروسامان سمجھا جاتا تھا۔ جب ہم مدینہ آگئے تو ہماری ان کی لڑائیاں شروع ہوگئیں، کبھی اللہ ان کو غلبہ دیتے اور کبھی ہم کو۔ ایک رات مقرّرہ وقت سے آپ کو آنے میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ ہم لوگوں نے کہا: آج رات تو آپ نے دیر کردی ۔ آپ نے فرمایا: روزانہ جتنا قرآن میں پڑھتا ہوں اس میں سے کچھ رہ گیا تھا، اسے پوراکیے بغیر آنا مجھے اچھا نہ لگا۔2 …٭ ٭ ٭…