حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ایک چشمہ کے پاس ٹھہرے، وہاں اُن کی حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے ملاقات ہوگئی جو اپنی باری میں حضور ﷺ کے صحابہ کی سواریوں کو چرارہے تھے۔ انھوں نے جب بنو ثقیف کے اس وفد کو دیکھا تو حضورﷺ کو اُن کے آنے کی خوش خبری سنانے کے لیے تیزی سے چلے۔ راستہ میں انھیں حضرت ابوبکر صدیق ؓ ملے۔ انھوں نے حضرت ابوبکر کو بتایا کہ بنو ثقیف کاوفد آیا ہے، وہ حضور ﷺ سے بیعت ہو کر مسلمان ہونا چاہتے ہیں بشرطیکہ حضورﷺ اُن کی شرط مان لیں اور اُن کی قوم کے نام خط لکھ کر دے دیں۔ حضرت ابو بکرنے حضرت مغیرہ سے کہا: میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم مجھ سے پہلے حضور ﷺ کے پاس مت جاؤ، میں جاکرخود حضور ﷺ کو بتاتا ہوں۔ حضرت مغیرہ راضی ہوگئے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے جاکر حضور ﷺ کو اس وفد کے آنے کی اطلاع دی، اور حضرت مغیرہ اس وفد کے پاس واپس گئے اور اُن کو ساتھ لے کر اپنے جانور واپس لے آئے اور راستہ میں اس وفد کو سکھایا کہ وہ حضور ﷺ کو سلام کیسے کریں، لیکن انھوں نے حضور ﷺ کو جاہلیت کے طریقہ پر ہی سلام کیا۔جب یہ لوگ حضورﷺ کی خدمت میں پہنچے تو ان کے لیے مسجد میں خیمہ لگایا گیا۔ حضرت خالد بن سعید بن عاص ؓ حضورﷺ کے اور اس وفد کے درمیان واسطہ تھے۔ جب وہ اس وفد کے لیے حضور ﷺ کے ہاں سے کھانا لے کر آتے تو جب تک ان سے پہلے حضرت خالد اس کھانے میں سے کھا نہ لیتے وہ اس کھانے کو ہاتھ نہ لگاتے۔ اور حضرت خالد نے ہی حضور ﷺ کی طرف سے اُن کے لیے خط لکھا تھا۔ انھوں نے حضور ﷺ کے سامنے اپنی یہ شرط بھی رکھی تھی کہ حضور ﷺ تین سال تک طاغیہ بت (یعنی لات) کو رہنے دیں، پھر وہ ایک ایک سال کم کرتے رہے لیکن حضور ﷺ مسلسل اِنکار کرتے رہے، یہاں تک انھوں نے حضور ﷺ سے ایک ماہ کی مہلت مانگی کہ جس دن وہ لوگ مدینہ آئے ہیں اس دن سے ایک مہینہ تک اس بت کو باقی رکھنے کی اجازت دے دی جائے۔ اور انھوں نے اس مہلت کا مقصد یہ بتایا کہ وہ اس طرح اپنی قوم کے نادان لوگوں کو ذرا مانوس کرنا چاہتے ہیں، لیکن آپ نے کسی قسم کی مہلت دینے سے انکار کردیا بلکہ حضرت ابو سفیان بن حرب ؓ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کو اُن لوگوں کے ساتھ بھیجا کہ یہ دونوں وہاں جاکر اس بت کو گرا کر آئیں۔ اور انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ وہ نماز نہیں پڑھا کریں گے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے بتوں کو نہیں گرائیں گے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس بات کو تو ہم مان لیتے ہیں کہ تم اپنے ہاتھ سے اپنے بتوں کو نہ توڑو (ہم اپنے آدمی بھیج کر تڑوا دیں گے) لیکن تم نماز نہ پڑھو یہ بات نہیں مان سکتے، کیوں کہ اس دین میں کوئی خیر نہیں جس میں نماز نہ ہو۔ انھوں نے کہا: اچھا! ہم نماز پڑھ لیں گے، ہے تو ویسے یہ گھٹیا عمل۔ حضرت عثمان بن ابی العاصؓ فرماتے ہیں کہ ثقیف کا وفد حضور ﷺ کی خدمت میں آیا۔ آپ نے ان کو مسجد میں ٹھہرایا