حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بھی سہیل سے ملے وہ اُن کو گھور کر بھی نہ دیکھے تاکہ وہ (بے خوف وخطر) باہر آجاسکیں۔ میری عمر کی قسم! (اس وقت تک اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانے کی ممانعت نہیں آئی تھی) سہیل تو بڑی عقل و شرافت والا ہے اور سہیل جیسا آدمی بھی کبھی اِسلام سے ناواقف رہ سکتا ہے؟ اور اب تو وہ دیکھ چکا ہے کہ جس راستہ پر وہ محنت کررہا تھا اس سے کچھ نفع نہ ملا۔ حضرت عبداللہ نے جاکر اپنے والد کو حضورﷺ کی ساری بات بتادی۔ سہیل نے کہا: حضور ﷺ تو بچپن میں بھی نیک تھے وہ اب بڑے ہوکر بھی نیک ہیں۔ چناں چہ حضرت سہیل حضور ﷺ کے پاس آیا جایا کرتے تھے ۔ حالتِ شرک میں ہی وہ غزوۂ حنین میں حضورﷺ کے ساتھ گئے یہاں تک کہ وہ جَعِرَّانہ میں مسلمان ہوگئے، اور اس دن حضورﷺ نے اُن کو مالِ غنیمت میں سے سو اونٹ دیے۔1 حضرت عمر بن الخطّابؓ فرماتے ہیں کہ فتحِ مکہ کے دن حضور ﷺ نے آدمی بھیج کر صفوان بن اُمیّہ اور ابو سفیان بن حرب اور حارث بن ہشام کو بلایا۔ حضرت عمر فرماتے ہیں: میں نے کہا: آج اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان پر قابو دیا ہے، انھوں نے آج تک جو کچھ ہمارے ساتھ کیا ہے وہ سب میں ان کو میں یاد دلائوں گا، کہ اتنے میں حضورﷺنے اُن سے یہ فرمایا کہ میری اور تمہاری مثال تو ایسی ہے جیسے کہ حضرت یوسف عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ السَّلَامُ نے اپنے بھائیوں کو فرمایا تھا: {لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْْکُمُ الْیَوْمَ ط یَغْفِرُ اللّٰہُُ ز لَـکُمْ وَہُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ}2 کچھ اِلزام نہیں تم پر آج ، بخشے اللہ تم کو، اور وہ ہے سب مہربانوں سے مہربان۔ حضرت عمر فرماتے ہیں: (حضورﷺ کی طرف سے یوں اعلانِ معافی سن کر) شرم کے مارے میں پانی پانی ہوگیا ۔ اگر بے سوچے سمجھے میری زبان سے کوئی بات نکل جاتی تو کتنا برا ہوتا جب کہ حضور ﷺ اُن سے یہ فرمارہے ہیں۔ 1 حضرت ابنِ ابی حسین ؓ فرماتے ہیں کہ جب حضورﷺ نے مکہ فتح فرمالیا تو آپ بیت اللہ میں داخل ہوئے ۔ پھر آپ نے باہر آکر دروازے کے دونوں بازوؤں پر ہاتھ رکھ کر (کفار سے) فرمایا: تم کیا کہتے ہو؟ سہیل بن عمرو نے کہا: ہم آپ کے بارے میں بھلائی کا گمان رکھتے ہیں۔ آپ کرم فرما بھائی ہیں اور کرم فرما بھائی کے بیٹے ہیں اور اب آپ ہم پر قابو پاچکے ہیں (اور یہ بات مشہور ہے کہ کریم آدمی قابو پاکر معاف کردیا کرتا ہے)۔ آپ نے فرمایا: میں بھی تم سے وہی کہتا ہوں جو میرے بھائی حضرت یوسف ؑ نے (اپنے بھائیوں سے ) کہا تھا : {لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْْکُمُ الْیَوْمَ} کچھ اِلزام نہیں تم پر آج ۔2 حضرت ابو ہریرہ ؓ ایک لمبی حدیث بیان فرماتے ہیں جس میں یہ ہے کہ پھر آپ کعبہ میں داخل ہوئے اور اس کے دروازے کے دونوں بازوؤں کو پکڑ کر آپ نے فرمایا: تم (میرے بارے میں) کیا کہتے ہو اور کیا گمان رکھتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ ہمارے بھتیجے اور چچازاد بھائی ہیں، اور بڑے بُرد بار اور مہربان، رحم کرنے والے ہیں۔ اور انھوں نے یہ