حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پھوپھی زاد بھائی اور آپ کی زوجۂ محترمہ حضرت اُمِّ سَلَمہؓکے بھائی) مدینہ اور مکہ کے درمیان حضورﷺ کے پاس پہنچ گئے ۔ان دونوں نے آپ کی خدمت میں حاضری کی درخواست کی۔ حضرت اُمِّ سَلَمہؓ نے حضورﷺ سے ان دونوں کی سفارش کی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ان میں سے ایک تو آپ کا چچا زاد بھائی ہے اور دوسرا آپ کا پھوپھی زاد بھائی اور سسرالی رشتہ دار (سالا) ہے۔ آپ نے فرمایا: مجھے ان دونوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اس چچازاد بھائی نے تو مجھے مکہ میں بہت ہی بے عزت کیا تھا، اور اس پھوپھی زاد بھائی اور سالے نے مکہ میں بہت سخت باتیں کہی تھیں۔ جب ان دونوں کو حضورﷺ کے اس جواب کا پتہ چلا تو ابو سفیان کی گود میں اس کا ایک چھوٹا بیٹا تھا تو اس نے کہا: یا تو حضورﷺ مجھے (اپنی خدمت میں حاضری کی) اجازت دے دیں، نہیں تو میں اپنے اس بیٹے کی انگلی پکڑ کر جنگل کو نکل جاؤں گا اور وہیں کہیں بھوکے پیاسے ہم دونوں مرجائیں گے۔ جب یہ بات حضورﷺ تک پہنچی تو آپ کو ان دونوں پر ترس آگیا۔ آپ نے ان دونوں کو آنے کی اجازت دے دی۔ وہ دونوں حاضرِ خدمت ہوکر مسلمان ہوگئے۔ جب حضورﷺ مرُّ الظَّہرَان میں ٹھہرے ہوئے تھے تو حضرت عباس نے کہا: ہائے قریش کی ہلاکت! اگر حضور ﷺ مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے اور مکہ والوں نے حضورﷺ سے اَمن طلب نہ کیا تو قریش ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں گے۔ حضرت عباس فرماتے ہیں کہ میں حضورﷺ کے سفید خچر پر سوار ہوکر چلا یہاں تک کہ میں اَرَاک مقام پر پہنچ گیا۔ میں نے سوچا شاید مجھے کوئی لکڑیاں چننے والا یا دودھ والا یعنی چرواہا یاکوئی ضرورت سے آیا ہوا آدمی مل جائے جو مکہ جاکر حضورﷺ کی آمد کی ان کو خبر دے دے تاکہ وہ حضورﷺکے فاتحانہ داخل ہونے سے پہلے ہی حضورﷺ سے اَمن لے لیں۔ میں خچر پر چلا جارہا تھا اور کسی آدمی کی تلاش میں تھا کہ اتنے میں مجھے ابو سفیان اور بُدَیل بن ورقاء کی آواز سنائی دی، وہ دونوں آپس میں باتیں کررہے تھے۔ ابوسفیان کہہ رہا تھا کہ میں نے آج تک نہ اتنی بڑی تعداد میں جلتی ہوئی آگ دیکھی اور نہ کبھی اتنا بڑا لشکر دیکھا۔ بُدَیل کہہ رہا تھا: اللہ کی قسم! یہ آگ قبیلہ خُزاعہ کی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ لڑائی کے ارادے سے نکلے ہیں۔ ابو سفیان نے جواب دیا کہ خزاعہ کی تعداد اتنی نہیں ہے کہ وہ اتنی جگہ آگ جلائیں اور ان کا اتنا بڑا لشکر ہو۔ حضرت عباس فرماتے ہیں: میں نے حضرت ابو سفیان کی آواز کو پہچان لیا۔ میں نے ان کو آواز دی: اے ابو حنظلہ! انھوں نے میری آواز پہچان لی اور کہا: تم ابو الفضل ہو؟میں نے کہا: ہاں۔ ابو سفیان نے کہا: میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں! اس وقت تم یہاں کیسے؟ میں نے کہا: اے ابو سفیان ! تیرا ناس ہو! یہ رسول اللہﷺ لوگوں کو لے کر آئے ہوئے ہیں۔ اللہ کی قسم ! ہائے قریش کی ہلاکت! اس نے کہا: میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں! اب بچنے کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ میں نے کہا: اگر تم ان