حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آپ ہم سے ایک طرف ہوگئے اور ہمارے گھوڑوں کا راستہ چھوڑ کر دائیں طرف چلے گئے۔ جب آپ نے حدیبیہ میں قریش سے صلح کرلی اور قریش نے آپ کو زبانی جمع خرچ سے واپس کرکے اپنی جان بچائی تو میں نے اپنے دل میں کہا: اب کون سی چیز باقی رہ گئی ہے؟ اب میں کہاں جاؤں؟ نجاشی کے پاس؟ نجاشی نے تو محمد ( ؑ) کا اِتباع کرلیا اور اُن کے صحابہ اس کے پاس امن سے رہ رہے ہیں۔ کیا میں ہِرَ قْل کے پاس چلا جاؤں؟ تو مجھے اپنا دین چھوڑ کر نصرانیت یا یہودیت کو اختیار کرنا پڑے گااور عجم میںرہنا پڑے گا، یا اپنے وطن میں باقی لوگوں کے ساتھ رہتا رہوں۔ میں اسی سوچ بچار میں تھا کہ اچانک حضور ﷺعمرہ کی قضا کرنے کے لیے مکہ میں تشریف لے آئے۔ میں مکہ سے غائب ہوگیا اور آپ کی آمد پر میںحاضر نہیں ہوا۔ اور میرے بھائی ولید بن ولید ؓ بھی حضورﷺ کے ساتھ اس عمرہ میں مکہ آئے، انھوں نے مجھے بہت تلاش کیا لیکن کہیں نہ پایا تو انھوں نے مجھے ایک خط لکھا جس کا مضمون یہ ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم اما بعد! ابھی تک اِسلام لانے کی تمہاری رائے نہیں بنی۔ اس سے زیادہ عجیب بات میں نے کوئی نہیں دیکھی حالاں کہ تم بہت عقل مند ہو۔ اِسلام جیسے مذہب سے بھی کوئی ناواقف رہ سکتا ہے؟ حضورﷺ نے مجھ سے تمہارے بارے میں پوچھا تھا کہ خالد کہا ںہیں ؟ میںنے کہا: اللہ تعالیٰ ان کو ضرور لے آئیں گے۔ آپ نے فرمایا: کیا خالد جیسا آدمی بھی اب تک اِسلام سے ناواقف ہے؟ اگر وہ اپنی ساری قوت اور محنت مسلمانوں کے ساتھ لگادیتے تو اُن کے لیے زیادہ بہتر تھا، اور ہم ان کو دوسروں سے آگے رکھتے۔ اے میرے بھائی! خیر کے بہت سے مواقع تم سے رہ گئے اب تو اُن کی تلافی کرلو۔ حضرت خالد فرماتے ہیں کہ جب مجھے اپنے بھائی کا خط ملا تو میرے دل میں مدینہ جانے کا ایک شوق پیدا ہوا اور اِسلام کی رغبت بڑھنے لگی اور مجھے اس بات سے بہت خوشی ہوئی کہ حضورﷺ نے میرے بارے میں پوچھا۔ اور اس زمانے میں، میں نے ایک خواب دیکھا کہ میں ایک قحط زدہ اور تنگ علاقہ میں ہوںاور میں وہاں سے نکل کر ایک سر سبزاور وسیع علاقے میں پہنچ گیا ہوں۔ میں نے کہا: یہ سچا خواب معلوم ہوتاہے۔ جب میں مدینہ آیا تو میںنے کہا: اس خواب کا حضرت ابو بکر ؓ سے ضرور تذکرہ کروں گا۔ (چناں چہ میں نے اُن سے اس خواب کا ذکر کیا تو) انھوں نے یہ تعبیر بتائی کہ علاقے کی تنگی سے مراد وہ شرک ہے جس میں تم مبتلا تھے اور اس تنگ علاقہ سے نکلنے سے مراد اللہ کی طرف سے اِسلام کی ہدایت کامل جانا ہے۔ جب میں نے حضورﷺ کی خدمت میں حاضری کا پختہ ارادہ کرلیا تو میں نے سوچا کہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ی کے لیے کس کو اپنے ساتھ لوں۔ (اس سلسلے میں) میں صفوان بن اُمیّہ کے پاس گیا اور میں نے اس سے کہا: اے ابو وہب ! کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ ہم کس حال میں ہیں؟ ہماری تعداد ڈاڑھوں کی طرح سے کم ہوتی جارہی ہے ا ور محمد